کورونا وائرس کا قہر اور مسلمانوں کی اللہ سے شکایت


علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے شکوہ اور جواب شکوہ میں اپنے درد کو لکھا اور اعتراض پر وضاحت بھی کردی۔ آج عام مسلمان بھی اللہ رب العزت سے شکوہ کناں ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر رہا ہے عالمی وبا جس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا اس کورونا وائرس کے قہر سے خلاصی کے لئے دعائیں کر رہا ہے مگر اللہ ان کی دعائیں قبول نہیں کرتا۔ اس سنگین ترین مرض کا دائرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے میڈیکل سائنس کے میدان میں دنیا کی عظیم ترین طاقتیں اور روئے زمین پر تمام تر وسائل رکھنے والے ممالک عاجز آکر آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیے ہیں اور اپنی بے بسی کا اعتراف کر رہے ہیں۔

وہ اپنے عقائد کے مطابق آسمان کی طرف سوپر نیچرل ہستی کی طرف نگاہیں جما رہے ہیں ہم اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اسی ایک قہار و جبار اور کن فیکون کے مالک سے التجا کر رہے ہیں اپنی اور مادی دنیا کی کم مائیگی کا اعتراف کر رہے ہیں رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں پھر بھی بظاہر اس خوفناک مصیبت سے نجات کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں مانگنے کو کہا اللہ رب العزت نے کہا مانگو ہم تمہاری دعائیں سنیں گے اور قبول کریں گے پھر بھی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں آخر کیوں؟

اللہ سے شکایت کرنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ سنة اللہ پر غور کرنا چاہیے اللہ جل جلالہ نے متعدد مقامات پر قرآن کریم میں فرمایا یہ آفات و مصائب تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مما کسبت ایدیکم۔ اس لئے ”ہم سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا جو اس وبا میں ہم مبتلاء ہیں“ یہ سوال اللہ سے کرنے کی بجائے ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ مادی دنیا میں جب سارے وسائل فیل ہو جائیں تو معنوی اخلاقی اور روحانی وسائل کی طرف مائل ہونا ناگزیر ہے۔ روحانی دنیا میں دعا کی قبولیت کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شرط بتائی ہے وہ ہے حلال رزق۔ بغیر کسی چوں چرا کے بغیر کسی تاویل اور فقہ کو توڑ مروڑ کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کے۔

ہر انسان کا ضمیر اس کے لئے بہترین جج ہے جائز نا جائز صحیح اور غلط میں تمیز کرنے والا بہترین آلہ ہے۔ ایک ملازم اپنی ڈیوٹی کے تئیں فرض شناس نہیں ہے وقت پر حاضر نہیں ہونے کے کئی بہانے اور نسخے استعمال کرتا ہے ایک تاجر کم ناپ تول اور عیب کو چھپا کر اپنا سامان بیچتا ہے جھوٹی قسمیں کھا کر خریداروں کو دھوکا دیتا ہے گراہکوں کو اپنی دیانتداری کا اعتبار کرانے کے لئے داڑھی ٹوپی پہنتا ہے اور جب اس کے مخلص ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں تو اس کے لئے مارکیٹ کمپیٹیشن کا جواز پیش کرتا ہے۔

اسی طرح ہر شعبے میں آج مسلمانوں کی پہچان غیر دیانت دار تاجر ملازم پارٹنر ٹیچر مدرس امام مؤذن کی ہے۔ پھر بھی شکایت اللہ سے ہے کہ وہ ہماری دعائیں نہیں سنتا! حقوق العباد کو طاق پر رکھ کر اللہ کی رحیمی و کریمی کی تسبیح اور غفور رحیم کی دہائی دیتے رہتے ہیں! دوسروں کے حقوق اور دین ادا نہیں کرتے مگر رمضان اور غیر رمضان میں سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریبوں میں اناج و کپڑے تقسیم کرتے ہیں! حلال حرام میں تفریق کیے بغیر دولت کماتے ہیں اپنے ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور مدارس اور مساجد میں بڑی بڑی رقم چندہ دیتے ہیں۔ اپنے گھر کے دروازے پر مولوی اور مولوی نما محصلین کی بھیڑ لگا کر ”دین اور دینی اداروں“ کے معاون کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments