امیر شہر کے نام


کئی روز سے ایک بڑھیا اپنے سات سالہ بچے کو بیل گاڑی پر لاد کر اسپتال سے چند دوائیں لے کر واپس چلی جاتی۔

باآخر کئی ہفتوں بعد خاتون بچے کو ایڈمٹ کروانے میں کامیاب ہوتی ہے اور یہ یقیناً اس کے لئے کسی بڑے معرکے کو سر کرنے سے کم نہیں تھا، وجہ پوچھنے پرجواب ملتا ہے کہ آخری عمر میں ہونے والے اس اکلوتے بیٹے کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، ڈاکٹر صاحب نے آپریشن کے لئے سات ہزار کا بل دیا ہے، میری ساری دولت ایک بکری تھی جسے بمشکل بیچ کر سات ہزار بنانے میں آج کامیابی ملی تو فوری لخت جگر کو لے کر ہسپتال پہنچی ہوں، بڑھیا اپنے تھرتھراتے ہاتھوں میں سات ہزار روپے کو بیٹے کے لئے آب حیات سمجھ رہی تھی۔

آنکھوں سے آنسوؤں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا تھا بیٹے کو تھیٹر میں آپریشن کے لئے لے جایا جاتا ہے تو ممتا باہر تڑپتی ہے، ہجوم سے بھر پور معاشرے میں کوئی اس کی داد رسی کے لئے نہیں آتا۔

قسمت نجانے کیوں ایسے لوگوں پر بوجھ ڈالتی ہے جوخود چلنے کے لئے سہارے کی تلاش میں ہوتے ہیں، خدا خدا کر کے بچے کا آپریشن تو کامیاب ہو گیا، ماں جی خوشی سے زارو قطار رو بھی رہی تھیں لیکن اس بے بس و لاچار عورت کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوتا، اسے بیٹے کو گھر پہنچانے کے لئے گاڑی چاہیے تھی لیکن اس کے پیسے کہاں سے آتے۔

غربت بعض اوقات لاچاری و مفلسی کا اتنا مذاق اڑاتی ہے کہ انسان بے بس ہو کر رہ جاتا ہے، بھرپور کوشش کے باوجود جب کوئی حربہ کارگر ثابت نہیں ہوا تو آپریٹ کیے گئے اکلوتے لخت جگر کو وہ خاتون بیل گاڑی پہ لاد کر کروڑوں کمانے والے ہسپتال سے لے کر گھر چلی جاتی ہے۔

قارئین کرام یہ کسی ڈرامے کا سین نہیں ہے، یہ اس معاشرے کے وہ تلخ حقائق ہیں جن کا احاطہ کرنا وقت کا اولین تقاضا ہے، طاقتور کو جیل میں مچھر کاٹنے سے خوفزدہ نظام کیا کبھی ایسے لاچار لوگوں کی امداد کرے گا۔

غریبوں کے نام پر چندہ اکٹھا کر کے اپنی غریبی دور کرنے والی تنظمیں کس سمندر میں غرق ہو جاتی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم لوگ بے حسی کی اس معراج پہ پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کسی بھی صورت ممکن نظر نہیں آتی، منہ ٹیڑھا کر کے ایک وقت میں لاکھوں کی پارٹیاں اڑانے والے معاشرے کو تو غریب سے صفائی کروانی ہے یا پھر کبھی امیر زادے کے جسم کا کوئی حصہ ضائع ہوجائے تو غربا کے اعضا چند ہزار کے عوض فوری دستیاب ہو جاتے ہیں۔

مفلسی سے شاید آپ نہ گزرے ہوں لیکن انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا احساس تو کرسکتے ہیں۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحدگی کا دکھ جھیلتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments