کورونا کی وبا اور مراد علی شاہ کی نقاب کشائی


اگر آپ راسخ العقیدہ جیالے نہیں ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بطور ایک حکومتی جماعت پیپلز پارٹی کا انتہائی نا اہل اور کرپٹ ہونا آپ کے سیاسی ایمان کا حصّہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس معاملے میں آپ کو مورد الزام ٹھہرانا مشکل ہے۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران سنائی گئیں ’عجب کرپشن کی غضب کہانیوں‘ میں شاعرانہ مبالغہ آمیزی اپنی جگہ لیکن اس ضمن میں پیپلز پارٹی کا اپنا رویہ بھی ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ والا ہی رہا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’سب پر بھاری‘ قیادت میں پیپلز پارٹی نے اس بات کا فیصلہ (یا ادراک) کر لیا ہے کہ فی الوقت اور مستقبل قریب میں اس کی سیاسی معراج سندھ کی حکمرانی تک ہی محدود ہے اور اس کے لئے گڑھی خدا بخش کا مزار ہی کافی ہے۔ قائم علی شاہ صاحب کو بطور وزیر اعلیٰ سندھ جب تبدیل کیا گیا تو اس فیصلے کی بظاہر وجہ بھی شاہ صاحب کی کارکردگی (یا عدم کارکردگی) کی بجائے زبان کی لغزشیں تھیں جو ویسے تو بے ضرر تھیں لیکن جگ ہنسائی کا باعث بنیں۔

ان بیانات کو شاہ صاحب کی پیرانہ سالی سے جوڑ کر خوب لطائف گھڑے گئے۔ شاہ صاحب کے ساتھ یہ رویّہ اس وقت بھی نامناسب سا لگتا تھا لیکن اب تو سراسر زیادتی لگتا ہے کہ جگ ہنسائی کے جتنے مواقع بزرگ شاہ صاحب سال بھر میں دیتے تھے اس سے کہیں زیادہ بے سروپا بیانات ہمارے جواں سال وفاقی وزیر فیصل واوڈا صاحب ایک سانس میں دے ڈالتے ہیں اور مبیّنہ طور پر وزیر اعظم سے داد پاتے ہیں۔

قائم علی شاہ صاحب کی جگہ جب مراد علی شاہ صاحب وزیر اعلی بنے تو تاثر یہی ملا کہ نام کے پہلے حصّے اور عمر کے علاوہ دونوں شاہ صاحبان میں کوئی فرق نہیں۔ اپنے پیشرو کی طرح مراد علی شاہ صاحب کا بنیادی کام بھی بڑے گھر سے آئے ہوئے احکامات کی تعمیل ٹھہرا اور اپنے پیشرو ہی کی طرح مراد علی شاہ صاحب نے بھی اس تاثر کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تاہم کورونا کی بدولت جہاں ہمیں دیگر تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں وہاں ایک تبدیلی مراد علی شاہ صاحب میں بھی دیکھنے کو ملی اور کورونا سے جڑی یہ غالباً واحد تبدیلی ہے جسے خوشگوار کہا جا سکتا ہے۔ کورونا کے خلاف سندھ حکومت کے اقدامات صحیح تھے یا غلط، بر وقت تھے یا قبل از وقت اس پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن شاہ صاحب کو اس معاملے میں کم از کم بے عملی کا طعنہ نہیں جا سکتا۔ سندھ کے شہریوں کا ردعمل اپنی جگہ لیکن حکومت سندھ کی ترجیحات میں کوئی ابہام نہیں۔

مراد علی شاہ صاحب کے برعکس ہمارے وزیر اعظم ابھی تک اس معاملے میں یکسوئی نہیں دکھا پائے۔ شروع میں ارشاد فرمایا کہ کورونا سے متاثرہ افراد میں سے چھیانوے فیصد شفایاب ہو جاتے ہیں جو کہ اتنا غلط بھی نہ تھا لیکن پھر شاید کسی نے بتایا ہو گا کہ حضور بائیس کروڑ میں سے ایک فیصد بھی متاثر ہوں اور ان میں سے چھیانوے فیصد تندرست ہو جائیں تب بھی اٹھاسی ہزار اموات ہوں گی۔ اس کے بعد وزیراعظم نے نیم دلی ہی سے سہی لیکن لاک ڈاؤن کی حمایت کی۔

ابھی کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ جاری ہے کہ اقتصادی سرگرمیوں کی محدود بحالی کا فیصلہ فرما دیا۔ خدا لگتی تو یہ ہے کہ اس باب میں وزیراعظم کا متذبذب ہونا ایک حد تک سمجھ میں آتا ہے کہ ایک جان لیوا وبا کے ملک گیر پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات اگر نچلے اور متوسط طبقے کی شرح بیروزگاری میں ہوشربا اضافے کا باعث بنتے ہیں تو یہ فیصلہ آسان نہیں۔ ’جان ہے تو جہان ہے‘ کا مقولہ اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصّہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کمائی گئی اجرت کا محتاج ہے۔

تاہم لاک ڈاؤن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ آسان نہ بھی ہو تو اس معاملے پر متضاد رویہ غیر ضروری تھا۔ پاکستانی مسیحی ملکی آبادی کا دو فیصد ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے انہیں ایسڑ کا تہوار گھر میں منانے کی نصیحت کرنا تو مناسب سمجھا لیکن ملک کی غالب آبادی کو نمازیں گھر پر پڑھنے کی تلقین کرنے کی ہمت نہ کر پائے۔ ایسڑ کے تہوار کے لئے ایک ٹویٹ کافی سمجھی گئی لیکن نماز جمعہ اور تراویح کے لئے ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں لمبے چوڑے نکات پر مذاکرات کیے گئے اور آخر میں ہمیں یہ نوید سنا کر کہ پاکستانی ایک آزاد ملک کے شہری ہیں اس مسئلے سے عملاً ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جیسے باقاعدہ اور ڈاکٹر شہباز گل جیسے بے قاعدہ مشیروں کے ذریعے سندھ حکومت پر سنگ زنی جاری تھی کہ وزیراعظم نے بقلم خود سندھ حکومت کو کو گھبراہٹ میں جلد بازی کا طعنہ دے مارا۔ اگر ہم دیگر ملکوں کی مثالیں دیکھیں تو نیوزی لینڈ اور جرمنی نے خطرے کا احساس ہوتے ہی گھبراہٹ میں یا کسی اور وجہ سے فوراً اقدامات اٹھائے اور اموات کی تعداد کم رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس کے برعکس اٹلی، برطانیہ اور امریکہ نے اس رویے کا مظاہرہ کیا جسے ہمارے وزیر اعظم ’ٹھہراؤ‘ کہتے ہیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ اور برطانوی وزیر اعظم جانسن نے شروع میں کورونا کو نزلہ زکام کی ایک شکل قرار دے کر اس کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم جانسن نے اوائل مارچ میں ایک پریس کانفرنس میں یہاں تک کہا کہ اور لوگ چاہے مصافحہ نہ کریں لیکن وہ اب بھی لوگوں سے ہاتھ ملانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس بیان کے کچھ ہفتے بعد ہی موصوف کورونا کا شکار ہو کر ہسپتال جا پنہچے اور جان کے لالے پڑ گئے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے وزیر اعظم کا نفرت کی حدوں کو چھوتا ہوا سیاسی اختلاف دیکھتے ہوئے سندھ حکومت کے اقدامات کو نہ سراہنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن سندھ حکومت پر باقاعدہ گولہ باری کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ مراد علی شاہ صاحب نے راقم جیسے کچھ لوگوں کو خوشگوار حیرت میں ضرور مبتلا کیا ہے لیکن پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت کے لئے خطرہ نہیں۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے دیگر کئی عوامل کے علاوہ ملکی زرعی پالیسی میں بھی تبدیلی درکار ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف گروپ کی خوش فہمیاں اپنی جگہ لیکن فی الوقت کسی اور کو اس قسم کے زرعی انقلاب کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ایسے میں جبکہ راوی وفاقی حکومت کے لئے چین ہی چین لکھتا ہے اگر خانصاحب بالآخر بطور وزیر اعظم ان قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ فرما ہی دیں جس کا چرچا ان کی کرکٹ کپتانی سے ہے تو ہم سوں کا تو بھلا ہو گا ہی لیکن خانصاحب کو بھی کارکردگی دکھانے لئے شوگر کمیشن اور پاور کمیشن جیسی ٹرک کی بتیوں کی احتیاج نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments