آن لائن کلاسز میں در پیش مسائل



ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان اداروں میں سرکاری نجی اور مدارس شامل ہیں۔ اداروں کے بند ہونے سے سب سے زیادہ یونیورسٹیز کا نظام متاثر ہوا۔ ہائیر ایجوکیشن کمشن سے منظور شدہ 174 یونیورسٹیز میں ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کے قریب سٹوڈنٹس زیرتعلیم ہیں۔ ان تیس لاکھ میں ایک بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ سمیسٹر جاری رکھنے کے لئے ان یونیورسٹیز میں آن لائن کلاسز کا نظام متعارف کروایا گیا۔

مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آن لائن کلاسز کا نظام زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا۔ بلکہ اس نظام نے ہمارے نوجوانوں میں ایک لکیر کھینچ دی۔ ایک ایسی لکیر جس کی زد میں اکثر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء اور طالبات مارے گئے۔ آن لائن کلاسز اکثر یونیورسٹیز میں ”ذوم“ ایپ کے ذریعے لی جا رہی ہیں اور ہمارے اکثر دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہونا تو بہت دور کی بات ہے موبائل نیٹ ورک کا ملنا بھی غنیمت مانی جاتی ہے۔

یونیورسٹیز کے اساتذہ کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں کہ آن لائن کلاسز لینا ضروری ہے۔ اسی کی بنیاد پر حاضری کی پرسنٹیج نکال کر ان کو نمبر دیے جائیں گے اور غیر حاضر بچوں کا سمسٹر فریز کر دیا جائے گا۔ سرگودہا یونیورسٹی کا ذکر کیا جائے تو سٹوڈنٹس کی ایک کثیر تعداد کلاسز نہیں لے پا رہی ہے، جس کی وجہ انٹرنیٹ کا نہ ہونا ہے۔ شوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کی ایک بچی کے مطابق ان کی کلاس میں پانچ ایسے بچے ہیں جو مسلسل غیر حاضر ہیں اور ایچ او ڈی کے حکم کے مطابق ان کا نام فریز ہونے والوں کی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔

اس طرح ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہزاروں بچوں کے مستقبل خطرے میں ہیں۔ ڈگری تو مکمل ہو جائے گی مگر اپنے جونئیرز کے ساتھ کلاس پڑھنا بھی بہت بڑی ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ آن لائن کلاسز کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بھی ایک محارت کا کام ہے اور ہمارے اساتذہ جو یقیناً کلاسز میں بہت محارت کے ساتھ پڑھاتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ محارت ’ذوم‘ پر بھی دکھائی جا سکے۔ پرائیویٹ اداروں کی بات کی جائے جو مختلف یونیورسٹیز کے ساتھ منسلک ہو کر ڈگریاں کروا رہے وہاں اکثر اداروں میں یہ کلاسز واٹس ایپ پر لی جا رہی ادارے کے اساتذہ تعلیمی مواد واٹس ایپ کر دیتے اور بچے اسے اگنور کر دیتے یا پڑھ کر بھی کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

ان تمام مشکلات کا اندازہ ہائیر ایجوکیشن کمشن کو بخوبی ہے، اس سلسلے میں ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس کے ذریعے تمام بچوں کو فائدہ ہو۔ ہفتہ وارانہ، بچوں کے انٹر ویو کیے جائیں ہر کلاس کے 5 بچوں کو بلا کر ان سے سمسٹر کے نصاب کے مطابق کچھ جنرل سوالات کیے جائیں اور ان کو پروموٹ کر دیا جائے۔ اس حوالے سے اساتذہ کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سوالات کس نوعیت کے ہونے چاہئیں۔ پرائیویٹ اداروں سے رپورٹ لی جائے اور وہاں بھی یہ کام وہاں پڑھانے والوں کے ذمے لگایا جائے۔ ظاہر ہے اس کام میں بھی بہت سی مشکلات ہو سکتی ہیں مگر یہ مشکلات آنے والی مشکالات سے کم ثابت ہوں گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments