ممتاز مفتی سے میرا تعارف


بی اے کے دوران مجھے مطالعہ کے لیے وافر وقت ملتا تھا۔ اس سے پہلے بھی مجھے مطالعہ کا شوق تھا لیکن FSC میں اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ بندہ کورس کے علاوہ ادب کو پڑھے۔ FSC کے بعد میں نے ایک سال فارغ رہ کر گزارا۔ درحقیقت یہ کہنا چاہیے کہ فلمیں دیکھتے ہوئے گزارا۔ اس کے بعد میں نے اپنے ذاتی فیصلے کی بنیاد پر BA میں داخلہ لے لیا۔ میرا فارغ وقت زیادہ تر کالج کی لائبریری میں گزرتا تھا۔

بی اے کے دوسرے سال میں نے کتابیں ایشو کرواکر گھر لانی شروع کیں۔ اور گھر پر باقاعدگی سے ان کا مطالعہ شروع کردیا۔ کالج کی لائبریری اس قابل نہیں تھی کہ میری پیاس بجھا سکتی۔ مجھے وہاں اعلی معیار کی چند ایک کتب ہی مل سکیں جن میں دیوان غالب، بانگ درا، پروین شاکر کی صدبرگ، منٹو کے افسانے، مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں (اندلس میں اجنبی، دیس ہوئے پردیس، ماسکو کی سفید راتیں، غار حرا میں ایک رات اور راکھ) پڑھنے کو ملیں۔ جمیلہ ہاشمی کا ناول دشت سوس پڑھنے کو ملا۔ اس کے علاوہ ابدال بیلا کے افسانوں کی کتاب سن فلاور اور نسیم حجازی کے ناول قیصر و کسریٰ اور قافلہ حجاز پڑھنے کو ملے۔ منشی پریم چند کے ناولوں کا مجموعہ بھی پڑھنے کو ملا۔ بانو قدسیہ کی صرف ایک کتاب امر بیل ملی اور اشفاق احمد کی زاویہ اور گلدان تلقین شاہ دستیاب ہوئیں۔ مگر اب تک میں ممتاز مفتی سے کنارہ کش رہا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا نام تھا یعنی مفتی۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ مولوی (مفتی) صاحب خواہ مخواہ فلسفہ بگھاریں گے لہذا ان سے دور ہی رہو۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ الماری میں عین درمیان میں ممتاز مفتی کے افسانوں کا مجموعہ مفتیانے کے نام سے دھرا تھا۔ اس کتاب کا سائز اس قدر تھا کہ میں اسے پڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

پھر ایک دن اتفاقا مجھے اسی الماری سے ممتاز مفتی کی کتاب غبارے مل گئی۔ جس کے چھپے رہنے کی وجہ اس کی خراب جلد تھی اور نام واضح نظر نہ آتا تھا۔ اس دن میں نے اسے اٹھا کر کھول کر دیکھا تو مضامین کی فہرست دلچسپ لگی۔ جو کہ مولانا صاحب کے طرز کے نہ ہو سکتے تھے۔ لہذا بندے نے کتاب پڑھی تو مفتی صاحب کا دیوانہ ہوگیا کیا خوبصورت طرز تحریر تھا۔ مجھے ان کا انداز بھا گیا اب جلدی سے الماری میں سے مفتی صاحب کی کوئی اور کتاب مفتیانے کے علاوہ تلاش کی جانے لگی۔

خوش قسمتی سے مجھے سمے کا بندھن مل گئی پڑھی تو مفتی صاحب نے مایوس نہ کیا بلکہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اب یہ کتاب پڑھنے کے بعد اتنا شوق ہوا کہ مفتیانے بھی ایشو کروا کر پڑھ ڈالی۔ کوئی پندرہ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل افسانوں کی کتابوں کا مجموعہ اور میں بلا کسی پریشانی کے اس سے پار نکل گیا۔ مفتی صاحب کی اور کوئی کتاب لائبریری میں نہ تھی اس لیے یہ سلسلہ یہیں رک گیا اور میرے مطالعہ کا عمل بھی کافی سست ہو گیا۔

یہاں میں ممتاز مفتی کی کتابوں کے بارے میں تھوڑا تبصرہ کرنا پسند کروں گا۔ مفتی صاحب کی تحریروں میں آزادی ہے مساوات ہے عزت ہے روانی ہے اس کے ساتھ ساتھ تکرار بھی ہے۔ جملوں اور نظریات کو بار بار دہرایا بھی گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں طنز ہے مزاح ہے سنجیدگی ہے غرض بہت کچھ ہے۔ ان کے ایک افسانے خدا بخش میں اتنا عمدہ مزاح ہے کہ اگر وہ اسی طرز کی تحریریں لکھتے تو پطرس بخاری، مشتاق احمد یوسفی، فرحت اللہ بیگ، شفیق الرحمان اور شوکت تھانوی جیسے مزاح کے استاد دست بستہ حاضر ہوجاتے یا کم ازکم دانتوں میں انگلی ضرور دبا لیتے کہ یہ بندہ ہماری شہرت کو گہنا دے گا۔

بی اے میں کامیاب ہونے کے بعد سرگودھا یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لے لیا۔ اور جو ڈگری چنی وہ ہے کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز۔ یہاں مجھے کافی قابل اور ٹیلنٹد دوست اور کلاس فیلوز ملے۔ ان میں ایک پیر بھائی احمد زعیم بھی ہیں۔ انہوں نے ایک دن باتوں باتوں میں مجھے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش پڑھنے کا مشورہ دیا اور ساتھ یہ بھی مشورہ دیا کہ ذرا کھلے دل و دماغ سے پڑھنا۔ کافی دن گزر گئے میں وہ کتاب نہ لے سکا نہ پڑھ سکا۔ پھر ایک دن خوش قسمتی سے پیارے دوست حذیفہ صدیقی نے کہا کہ اس کے پاس تلاش پڑی ہے۔ بس پھر کیا تھا اس سے کتاب لی اور پڑھ ڈالی۔

تلاش کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں وہ کتاب ایک بلکہ کئی الگ مضامین کا تقاضا کرتی ہے لہذا پھر کبھی سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments