کرونا وائرس اور خدائی مددگار!


انسانی رشتوں کا پاس و لحاظ انسان نگری کو خوش حال ’مستحکم اور عدل و انصاف کا آئینہ دار بناتا ہے اور انسانی رشتوں کی خلاف ورزی پورے معاشرے کو بد حال‘ سماج کو کو ظالم ’انسانی دلوں کو پتھر اور امن و آشتی کو متزلزل کر کے رکھ دیتی ہے۔ جہاں انسانیت کے چشمے سوکھ جاتے ہیں وہاں محبت و اخوت کے شجر مرجھا جاتے ہیں اخلاق و مروت کے پھل کڑوے ہو جاتے ہیں اور پر امن فضا مکدر ہو جاتی ہے‘ انسانیت کی دھجیاں اڑتی ہیں ’نفرت کے اولے برستے ہیں‘ انسانوں کے دل پتھر اور ظلم و ستم کی آندھی اودھم مچاتی ہیاور انسان کا خون پائی سے بھی ارزاں ہو جاتا ہے۔

انسان کا مزاج بہت نرالہ اور عجیب و غریب ہے ایک طرف اس کی انسانی ہمدردی مثال اور دلیل بن کر معاشرے میں گونجتی ہے تو دوسری جانب اس کی خود غرضی کے سامنے انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے جب وہ محبت کرنے پر آتا ہے تو معاشرے کی ساری مٹھاس سمیٹ لیتا ہے جب نفرت پر آتا ہے تو اس کی کڑواہٹ سے کریلا بھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا کرونا وائرس جیسی مہلک وبا سے جنگی بنیادوں پر نبرد آزما ہے ہمارے ملک میں اس وقت اس وبا کے تدارک کے حکومتی اقدامات کے باعث انسان لاک ڈاؤن کے حصار میں ہے اور اس لاک ڈاؤن کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس وبا کے پھیلاؤ کی رفتار میں کہیں بھی سست روی دیکھنے کو نہیں آرہی ہے۔

لوگ اس وبا کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لئے گھروں میں قید ہیں سماجی دوری نے انسان کو آدم بیزار کر دیا ہے عوام حکومت کی جانب سے اور شعبہ صحت کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو کر کرونا کو شکست دینے کے لئے متحد نظر آرہی ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث تجارتی سرگرمیاں منجمد ہو کر رہ گئی ہیں ملک میں معاشی بحران میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور عام آدمی بیروزگاری ’بھوک و افلاس قرض اور مرض کے بھنور میں گھر چکا ہے۔

ملک کے ان گمبھیر حالات کے پیش نظر معاشرے میں آباد صاحب ثروت ایسے افراد بھی موجود ہیں جو غریب اور متوسط طبقہ پر اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے اپنی گرہ سے خرچ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انسان صفات حمیدہ اور بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے جس کی وجہ سے تمام مخلوقات پر اسے ممتاز حیثیت حاصل ہے اس کے نصیب پر دوسری مخلوقات انگشت بدنداں ہے اور اسے نگاہ رشک سے دیکھتی ہیں اور انسان کو جو چیز دیگر مخلوقات سے ممتاز اور معزز کرتی ہے وہ انسانیت ہے بلا شبہ انسانیت ایک ایسی صفت و علامت ہے جو اسے عروج و کمال سے ایسے نوازتی ہے کہ فلک بھی ناز کرتا ہے۔

انسانیت رنگ و نسل‘ قبائل و خاندان ’مذہب و ملت اور سرحدوں سے بالاتر ہو کر انسانی رشتوں کو جوڑنے اور ان کے درمیان پیار و محبت اور ہمدردی و خیر خواہی کو پروان چڑھانے کا نام ہے۔ چند قبل میرے ایک دوست صحافی و کالم نگار مرزا رضوان نے میرے واٹس اپ پر ایک ویڈیو بھیجی تو وہ ویڈیو دیکھ کر ہمدردی کی اس مثال پر رشک آیا کہ جہاں ان حالات میں انسان اپنے آپ کو اور اپنے معاشی حالات کو بچانے کے اس جنگی ماحول میں اپنی درازی سانسوں کی پرورش میں مصروف ہے وہیں یہ ویڈیوہمیں چرند پرند اور جانوروں کو بھی اس قحط زدہ ماحول میں بچانے کی ترغیب دیتی نظر آتی ہے۔

اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ چرند پرند اور جانور بھی بھوک کا شکار ہیں مرزا رضوان نے تنظیم مشائخ عظام پاکستان کے امیر و چیئرمین لاثانی ویلفیئر فاونڈیشن شاہدرہ کے زیر اہتمام مسعود احمد صدیقی کی ہدایت پر حالات کے پیش نظر بھوکے جانوروں اور پرندوں کے لئے فوڈ پوائنٹ قائم کیا۔ یہ فوڈ پوائنٹ شاہدرہ راوی بند کے مقام پر قائم کیا گیا ہے جہاں پر بھوک اور اپنی پیاس کو مٹانے کے لئے جانور اور پرندے آتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس تنظیم کا یہ عمل قابل ستائش اور قابل تقلید ہے جو کہ جانوروں کے حقوق کے لئے عملی میدان میں اتری ہے اس تنظیم کی یہ کاوش دوسری رفاہی تنظیموں اور صاحب ثروت افراد کے لئے غور و فکر کی متقاضی ہے۔

اس معاشرے میں آباد تما م صاحب ثروت افراد اور تنظیموں کو چاہیے کہ وہ لاثانی ویلفیئر فاؤنڈیشن کی اس عملی تصویر کا تسلسل بنیں۔ جو بھی تنظیمیں اور افراد اس مشکل حالات میں غریبوں اور متوسط طبقے کی امداد کا ذریعہ بن رہے ہیں وہ یقیناً خدائی مدد گار ہیں یہ لوگ اور تنظیمیں قابل رشک ہیں دراصل انسانیت بنیادی طور پر اس تصور کا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل دوسرے انسانوں کی غم خواری کے لئے دھڑکتا ہے اور اخوت انسانی کا محل تعمیر کر کے اس میں سارے انسانوں کو یکجا کرتا ہے۔

گویا انسانیت ہی وہ نایاب گوہر ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کرتا ہے اور انسان کی اسی قدرو منذلت کے باعث حیوان بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ کرونا وائرس نے پوری دنیا سمیت پاکستان میں حالات اس نہج پر رہے تو پھر معاشرے میں قحط سے جو بدحالی ہو گی اس سے بچاؤ کیانسان کے بس کی بات نہیں ہو گی کرونا وائرس سے بچاؤ اور اس کے تدارک کے لئے معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کو اپنے اپنے گناہوں سے تائب ہو کر خدائی معجزے کے لئے گڑ گڑا کر دعا کرنے کی اشد ضرورت ہے اس کے بغیر اس آفت سے چھٹکارا ممکن نہیں کیونکہ دنیا میں اس کے علاج کے لئے ابھی تک کوئی دوا تیار نہیں ہوئی۔

اس بابرکت رمضان کے مہینے کی فضیلتیں اور برکات بے شمار ہیں موجودہ حالات میں ہمیں سماجی دوری کو برقرار رکھتے ہوئے فرض نمازوں‘ جمعہ اور تراویح کا بھی اہتمام کرنا ہے حکومتی اعلانات ’اور ریاستی حکام کی جانب سے جو احتیاطی تڈابیر جاری کی گئی ہیں ان کا خاص خیال کرتے ہوئے سختی سے عمل درآمد کرنا ہے۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کا صرف حکومتی اعلان نہیں بلکہ یہ شرعی حکم بھی ہے حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ اگر کسی سرزمین میں طاعون پھیلنے کی خبر تمہیں ملے تو تم وہاں سے باہر مت نکلواسی کو تو آئیسولیشن اور قرنطینہ کہتے ہیں۔

دوسرا قول حضرت عمرو بن العاص کا ہے کہ وبائی بیماری آگ کی طرح ہوتی ہے جس کا ایندھن انسان بنتے ہیں اس لئے الگ الگ ہو جاؤ نیز ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں پر بس جاؤ یعنی گھنی آبادی سے دور پہاڑ پر دیرے ڈال لو جب آگ کو ایندھن نہیں ملے گا تو وہ بجھ جائے گی یعنی وبا ختم ہو جائے گی۔ ہمیں یہ بات تاریخ اور حدیث پاک کی روشنی میں ازبر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ کرونا وائرس ایک سیلاب کی مانند ہے جو اس پانی کے دھارے اور بہاؤ سے دور کھڑا رہے گا وہی بچ پائے گا یہ آگ کی طرح ہے جو اس سے دور رہے گا وہی محفوظ رہے گا اور جو اس وبا کی آگ سے خود کو احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کر کے بچا پایا وہ جل کر خاکستر ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments