دستائیوسکی اسلام کے بارے میں کیا جانتا تھا؟


دستاییوسکی اور اسلام۔ موضوع مشکل بھی ہے اور کئی طرح سے سمجھنے لائق بھی۔ انہوں نے اپنی تحریر کے کسی بھی پیرے میں اس مذہب پر روشنی نہیں ڈالی جیسا کہ انہوں نے عیسائیت اور یہودیت کے ضمن میں کیا تھا تاہم اس عظیم ادیب کی تحریروں میں اسلام کی فکر بارے اندازے بہر طور پائے جاتے ہیں۔

معلوماتی کتاب ”دستاییوسکی اور عالمی ثقافتیں“ کے مدیر اعلٰی اور فلسفی ڈاکٹر کارین ستیپانیان نے عظیم روسی مصنف کے اسلام سے رشتے سے متعلق ہمارے نامہ نگار کے سوالوں کے جواب دیے ہیں۔

سوال:دستاییوسکی کو کب اور کیسے اسلام میں دلچسپی ہوئی تھی؟

جواب: انہیں اسلام اور قرآن میں دلچسپی انہیں جوانی میں ہی ہو گئی تھی۔ دستاییوسکی غیر معمولی طور پر بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ وہ بہت زیادہ باعلم شخص تھے، فرانسیسی زبان روانی سے بول لیتے تھے۔ ان کی لائبریری میں قرآن کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ موجود تھا، یقیناً انہون نے اس کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اسلام میں انہیں گہری دلچسپی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا تجربہ حاصل رہا تھا۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جوانی کے نو برس دستاییوسکی نے ایشیا میں بتائے تھے۔ پہلے اومسک کے بیگار کیمپ میں اور بعد میں چار سال سیمی پلاتنسک میں۔ اسلام ان کے لیے زیادہ قریب یوں ہوا کہ ایشیا میں موجودگی کے آخری برسوں میں معروف مستشرق اور شاندار شخص چوکن ولی خانوو ان کے دوست بن گئے تھے۔ یہ آخری تاتار خان کے پوتے تھے۔ وہ روس کی فوج کے افسر تھے۔ تھے تو قدامت پسند عیسائی مگر انہیں اسلام، مشرق اور قرآن کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔

ان کی سالہا سال تک دستاییوسکی سے یاری رہی تھی۔ ولی خانوو نے انہیں اسلام کے بارے میں، قرآن کے بارے میں اور کلی طور پر مشرق کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا کیونکہ وہ نسل شناس بھی تھے، تاریخ دان بھی اور مترجم بھی۔ علاوہ ازیں وہ روسی سلطنت کے ترک خطوں میں حکومت روس کے ایلچی بھی تھے۔ دستاییوسکی نے ان سے بہت کچھ جانا تھا۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ دستاییوسکی نے کبھی کسی انسان سے نسل کی بنا پر نفرت نہیں کی۔ دستاییوسکی کے لیے انسان جیسے تھا ویسے ہی اہم تھا۔ ان کے بیگار کیمپ میں لکھے گئے معروف ناول ”مردہ خانے سے رقعے“ میں قابل توجہ صفحات ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مصنف نے ایک نوجوان داغستانی مسلمان علی کے ساتھ کس طرح باتیں کی تھیں اور کیسے ان کا مکالمہ ایک طویل عرصے تک جاری رہا تھا۔ مثال کے طور پر مصنف نے کس طرح علی کو روسی زبان پڑھنا سکھائی اور کس طرح اس انجیل کی مدد سے جو ان کے پاس تھی اسے روسی زبان میں لکھنا سکھایا تھا۔

ایک اور شاندار مثال ہے جو یہ جاننے پر مجبور کرتی ہے کہ کس طرح دستاییوسکی نے نہ صرف نوجوان مسلمان کے استاد کا کردار ادا کیا تھا بلکہ قدامت پرست عقائد کے ایک ”مشنری“ یا ”مبلغ“ کا بھی۔ انہوں نے خود بھی علی سے بہت کچھ سیکھا تھا۔

علی نے جب دستاییوسکی سے حضرت عیسٰی سے متعلق سنا تھا تو کہا تھا، ”عیسٰی اللہ کے نبی ہیں۔ عیسٰی اچھی باتیں کرتے تھے۔ تقریباً ویسی ہی باتیں جیسی ہمارے قرآن میں ہیں“ ۔

ممکن ہے فیودر دستاییوسکی نے تب ہی عیسائیت اور اسلام میں تطابق محسوس کیا ہو اور جانا ہو کہ قرآن اور انجیل مماثل کتب ہیں۔ میرے نکتہ نگاہ کے مطابق یہی وقت تھا جب دستاییوسکی کو ان دو عظیم عالمی مذاہب میں مماثلت کا احساس ہوا ہوگا۔

سوال:سب جانتے ہیں کہ لیو تالستوئی کے کتب خانے میں قرآن کے کئی نسخے محفوظ ہیں، کیا دستاییوسکی کے کتب خانے میں بھی ہیں؟

دستاییوسکی کے کتب خانے کی ایک تفصیلی فہرست وجود رکھتی ہے جس کے مطابق ان کے کتب خانے میں فرانسیسی زبان میں قرآن کا نسخہ موجود تھا۔ اس فرانسیسی ترجمے کا ہی روسی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا جس کی 1864۔ 65 میں دو بار اشاعت ہوئی تھی۔ مگر یاد رہے یہ فہرست ان کی موت کے بعد مرتب کی گئی تھی۔ پیٹرزبرگ میں دستاییوسکی بار بار رہائش گاہ تبدیل کرتے رہے تھے یوں بہت سی کتابیں کھو گئی تھیں۔ جب وہ قرض خواہوں سے بچنے کی خاطر بہت زیادہ سال بیرون ملک رہے تھے تو ان کے ملازم نے جسے کام کرنا پسند نہیں تھا عملی طور پر ان کے کتب خانے میں جمع ساری ہی کتابیں بیچ ڈالی تھیں تاکہ ان سے حاصل ہونے والے وسائل سے زندگی بسر کر سکے۔ چنانچہ ممکن ہے ان کتابوں میں قرآن کے دیگر نسخے بھی ہوں البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ جوانی میں ہی کر لیا تھا

سوال:جیسا کہ معلوم ہے کہ روس ترک جنگ کے دوران دستاییوسکی نے بنیاد پرست اسلام مخالف موقف اختیار کیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟

جواب: جہاں تک 78۔ 1877 میں روس ترک جنگ کے دوران دستاییوسکی کے یک لخت اسلام مخالف ہونے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ سلطنت عثمانیہ کی قبضہ گیر پالیسی تھی اور ان لوگوں کا سفاک پن جو اس پر عمل درآمد کر رہے تھے اور جو مذہب کی آڑ لیے ہوئے تھے۔ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ تب حالات بہت زیادہ کشیدہ تھے کیونکہ خود روسیوں میں بھی اس جنگ کی شدید مخالفت موجود تھی۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان لوگوں کی مذمت کی جاتی تھی جو رضاکارانہ طور پر سربوں کی مدد کرنے جا رہے تھے۔

دوسری بات یہ کہ خود جنگ کی بھی مذمت کی جاتی تھی کہ سربوں کی خاطر بھلا کیوں جنگ کی جائے اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔ دستاییوسکی کو ایسے وقت میں ان لوگوں میں جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی جو وہاں جا کر لڑنے اور اس مقابلے کی جنگ میں جان کا نذرانہ دینے کی خاطر تیار تھے۔ ان لوگوں کی مخالفت کیے جانا مقصود تھی جو ترکوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھے اور اس سے روس بچنا چاہتا تھا۔

انہوں نے کچھ اور ادیبوں کی مانند جو خود کو جیسے وہ اصل میں ہیں کی نسبت زیادہ سچا بنا کر پیش کرتے ہیں، اپنے آپ کو پیش نہیں کیا تھا۔ دستاییوسکی کا دلی خواب تھا کہ زمین پر بسنے والی تمام اقوام اور تمام تہذیبیں ایک ہم آہنگ وحدت میں ضم ہو جائیں۔ ان کو اس بارے مین یقین تھا اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس کے لیے کوشش کی تھی۔ اقوام کا ہم آہنگ اجتماع ان کا بنیادی خواب تھا۔

Fyodor Dostoyevsky 1876

سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ”دستاییوسکی اور اسلام“ کے موضوع کی جانب رجوع، کیا ہمیں معاصر مسائل کے حل کا نسخہ دیتا ہے؟

جواب: معروف فلسفی گریگوری پامیرانتس نے کہا تھا کہ مسلمانوں، عیسائیوں، ملحدوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے مابین کھڑی کی جانے والی باڑیں آسمان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ خدا ایک ہے۔ یقیناً آسمان پر باڑیں نہیں ہیں مگر ہمارے ہاں ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان باڑوں کو انتہائی شفاف بنا ڈالیں۔ مطلب یہ کہ ہم ان باڑوں کو مانیں، ان کو دیکھیں لیکن ان کو بے حد شفاف بنا ڈالیں نہ کہ آہنی دیواروں کی مانند جن کے پیچھے کوئی بھی کچھ بھی نہ دیکھ سکے۔

دستاییوسکی کی مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے، باڑوں کو زیادہ شفاف کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھا جائے۔ ثقافتوں اور تہذیبوں میں مغائرت پیدا کرنے والے مسائل کی دشواریوں کو سمجھا جائے۔ سمجھا جائے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کے ذریعے ان مسائل کو دور کیا جا سکتا ہے۔ راستہ ایک ہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی بات سنیں اور اپنے نکتہ نظر کو واحد سچ نہ جانین جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ دستاییوسکی سکھاتا ہے کہ مخالف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کا نکتہ نظر سمجھا جائے، اسے اپنے نکتہ نظر سے متفق کرنے کی کوشش کی جائے اور کسی طرح کی مصالحت کی جانی چاہیے۔ یہ اصول اس وقت ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments