مولانا کی حق گوئی جرم بن گئی ہے!


دنیا میں کوئی اللہ کا ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا وی ہمہ ہمی، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تواس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے کہ جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، اس کے باوجود بندہ گناہگار توبہ استغفارسے بیگانہ اللہ تعالی کی ناراضگی مختلف آسمانی آفات کی شکل میں بھگت رہا ہے، کورونا وائرس بھی اللہ تعالی کی طرف سے بڑا عذاب ہے جس سے نجات صرف توبہ استغفارکی ویکسین سے ہی ممکن ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس عذاب الٰہی سے نجات کے لئے توبہ و استغفارکے راستے کا انتخاب قابل تحسین قدم تھا، انہوں نے اللہ تعالی کے حضور اجتماعی دُعا کے لئے اس عہد کے جید عالم دین اور بے مثل خطیب مولانا طارق جمیل کو منتخب کیا، مولا نا کی دُعا ایک عاجز و بے کس قوم کی دُعا تھی، ہر پا کستانی کی آنکھ سے آنسو رواں ہو گئے کہ جب مولانانے کہا کہ مَیں تو کیمروں کے سامنے بیٹھا رو رہا ہوں، شاید میرے رونے میں ریا کاری ہو، لیکن جو لوگ گھروں میں بیٹھے اللہ تیرے آگے گڑ گڑا رہے ہیں، آنسو بہا رہے ہیں کم از کم اُن کی فریاد ہی سن لے تو اُس وقت رقت آمیز مناظر دیکھے گئے، ایسا لگا کہ جیسے ہم سب اللہ کے حضور اپنے گناہوں، خطاؤں، حکم عدولیوں، زیادتیوں اور برائیوں کی صدقِ دِل سے معافی مانگ رہے ہیں۔

اس دُعا میں ٹی وی چینلز کے معروف اینکرز بھی دست ِ بدعا تھے، لیکن بعد ازاں اُنہوں نے اپنے پروگراموں میں جاتے ہی مولانا طارق جمیل پر چڑھائی کر دی کہ انہوں نے 22 کروڑ عوام کو بُرا کیوں کہا، کیوں یہ تسلیم کیا کہ ہم گنہگار، ریا کار، جھوٹے اور نافرمان ہیں۔ یہ طوفان اتنا بڑھا کہ مولانا طارق جمیل کو میڈیا کے بارے میں کہے گئے الفاظ پر ہاتھ جوڑ کرمعافی مانگنا پڑی، ویسے مولا نا معافی مانگنے میں پہل کرنے کی ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے ہیں، تاہم اس بار انہوں نے خود معافی مانگ کر ثابت بھی کر دیا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ عاجزی و انکساری کو پسند کرتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ بندہ گناہگار اپنے گناہوں کو تسلیم کر کے اُس سے معافی مانگے، یہ پیغمبروں اور صوفیوں کا راستہ ہے کہ خود کو معتوب و مصلوب قرار دے کر خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ اس میں کون سی غلطی ہے کہ ہم خود کو گناہوں میں ڈوبا ہوا تسلیم کر کے اللہ سے معافی مانگیں، ناکہ اکڑ جائیں کہ ہم بہت نیک، پارسا، سچے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرمائے۔

کیا ہم اپنے کسی وعدے کی بنیاد پر اللہ سے اپنا حق طلب کر سکتے ہیں، کیا پیغمبروں نے ایسا کیا، یا ولیوں، صوفیوں اور اللہ والوں نے ایسا دعویٰ کیا ہے، کیا دُعا مانگنے کا کبھی یہ طریقہ کسی نے دیکھا یا سنا کہ اپنی نیکیاں گنوا کر خدا سے اُن کے بدلے میں رعایت مانگی جائے، کیا انسان اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا بدلہ چکا سکتا ہے، تو پھر مولانا طارق جمیل اللہ کے حضور سچائی بیان کرکے کو نسا ایسا بڑا جرم کر دیا ہے کہ انہیں مجرم قراردے کر معافی منگوائی جارہی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اخلاقی زوال کا شکار نہیں ہیں، کیا اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کا جو راستہ بتایا ہے ہم اسی کے خلاف زندگی نہیں گزار رہے ہیں، کیا ماہِ رمضان میں ناجائز منافع کے لالچ میں ہم ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور مصنوعی مہنگائی نہیں کرتے، کیا ہمارے نظام میں رشوت کی گرم بازاری موجود نہیں، کیا اربوں روپے کی لوٹ مار ہمارے نظام کا حصہ نہیں، کیا مظلوموں پر ظلم ڈھانے والے معاشرے میں دندناتے نہیں پھرتے ہیں، کیا جھوٹ مکر و فریب ہماری زندگیوں کا حصہ نہیں، ہم ایک دوسرے سے تو اِن سچی باتوں کو چھپا سکتے ہیں، مگراللہ تعالیٰ تو سب دیکھ رہا ہے، وہ تو دِلوں کے حال جانتا ہے، اگراُس کے سامنے بھی ہم اپنے گناہوں کا اقرار کیے بغیر معافی کے طلب گار ہوں گے تو کیا ہمیں معافی ملے گی؟

مولانا طارق جمیل نے اللہ تعالی کی بار گاہ میں سچائی اور عاجزی سے سب کے گناہوں کی توبہ استغفار کی ہے، اگرانہوں نے کسی میڈیا ہاؤس یا میڈیا سے متعلق جھوٹ بولنے کی بات کی ہے تو کو نسا ایسا جرم کر دیا کہ جس کے لیے اُنہیں معافی مانگنا پڑی، مولانا سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے، اُن کے کسی مخصوص طرزِ عمل پر اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن مولاناکا جھوٹے کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا قابل تحسین ہے۔

بے شک کچھ ٹی وی اینکرز نے مولانا طارق جمیل کو اس بات پر آڑے ہاتھوں لے کر کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا جھوٹ اور فریب کی آماجگاہ ہے، اُنہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ معافی مانگ کر ایک سائڈ پر ہو گئے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ٹی وی اینکرز دِل بڑا کرتے اور مولانا طارق جمیل کی باتوں کو اُن کی رائے سمجھ کر قبول کر لیتے، فیصلہ تو قوم نے کرنا ہوتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، مگر اس طرح کا ردعمل ظاہر کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ میڈیا ایک مقدس گائے ہے، اُس کے بارے میں جو کوئی بھی بات کرے گا، حتیٰ کہ دُعا میں بھی اللہ سے یہ معافی مانگے گا کہ ہمارا میڈیا جھوٹ پھیلاتا ہے تو اُسے معاف نہیں کیا جائے گا۔

مولانا طارق جمیل کا کلمہ حق بلند کرنا ہی جرم بن گیا ہے، انہوں نے بہت سے لوگوں کی دانست میں معافی مانگ کر ٹھیک کیا ہے، وگرنہ میڈیا نے اُن کے پیچھے پڑے رہنا تھا۔ مولانا تبلیغِ اسلام کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے، پہچانے جاتے ہیں اور اس حوالے اُن کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تاہم وہ میڈیا، حکمرانوں اور دوسرے طاقتور طبقوں کوتبلیغ ضرور کریں اور اُنہیں سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین بھی کریں، لیکن ایسا تاثر بھی نہ آنے دیں کہ جیسے مولانا حکمران طبقہ سے دوستی میں سب کچھ کرگزررہے ہیں۔ مولا نا اپنے آپ کو سیاسی تنازعات سے بچانے کے ساتھ ہو سکے تو میڈیا سے دور ہی رہیں، کیونکہ یہ دوسروں کے سامنے سچائی کی آواز بلند کرنے کے دعوئیداراپنے منہ پرسچائی برداشت نہیں کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments