شرمیلی کی روح، شرمیلی کا جسم، پر شاہ جی کی مرضی


جیپ شرمیلی کے پاس آ کر رکی تو وہ گھبرا گئی۔ چھوٹے قد اور چوڑے شانوں والا منیر جیپ سے باہر نکلا اور مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہؤا شرمیلی کے سامنے آ کھڑا ہو گیا۔

’اور جوان ہو گئی ہے تُو! میں نے تو کافی دنوں سے تجھے دیکھا ہی نہیں۔‘
’میرا راستہ نہیں روکو چھوٹے شاہ جی، میں ابا کو کھانا دینے جا رہی ہوں وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔‘

’میں بھی تو تیرا انتظار کر رہا ہوں۔ ‘ منیرکی نظریں شرمیلی کے جسم پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دوڑ رہی تھیں۔ ’دبلی پتلی، نکھری رنگت، بھرے ہوئے ہونٹ، ہائے ہائے کیا اٹھان ہے تیری!‘

منیر نے آگے بڑھ کر شرمیلی کی کلائی پکڑ لی۔
’چھوٹے شاہ جی، مجھے جانے دیں مجھے جانے دیں۔‘

’تو میری مرضی کے بغیر کہیں نہیں جا سکتی، کبھی مجھ سے بھی پیار کے دو بول کہہ دیا کر۔‘ اور منیر نے شرمیلی کو چنے کے کھیت کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔

’نہیں نہیں! چھوٹے شاہ جی مجھے جانے دیں۔ ‘ شرمیلی نے اونچی آواز میں واویلا کیا۔

منیر نے ایک تھپڑ شرمیلی کے منہ پر رسید کیا تو اس کا سر چکرا گیا۔ ’لگتا ہے کہ تو مار پیٹ کے بغیر نہیں مانے گی اور زیادہ شور مچایا تو تیرے ابّا کو دنوں دن غائب کروا دوں گا۔‘

چنے کے کھیت میں جا کر منیر نے شرمیلی کے کپڑے پھاڑ دیے اور اس کو گرا کر نوچنا شروع کر دیا۔ شرمیلی کی چیخوں سے پورے کھیت میں پرندے پھڑپھڑا کر اڑ رہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد منیر ادھ مری شرمیلی کے اوپر سے ہٹا اور اپنے کپڑے ٹھیک کرتے ہوئے جیپ میں بیٹھ کر چلا گیا۔


’تھانیدار صاحب، میری بیٹی شرمیلی کو کسی نے اغوا کر لیا۔ وہ گھر سے نکلی تھی مجھے کھانا دینے کے لئے لیکن راستے میں کسی نے اسے اٹھا لیا۔‘ گلزار نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

’تجھے کیسے پتا کہ اسے اغوا کر لیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ بھاگ گئی ہو۔ بیٹیاں سنبھالی نہیں جاتیں اور آ جاتے ہیں رپورٹ لکھوانے۔‘ تھانیدار نے گلزار کو گھور کر دیکھا اور اپنی توند پہ ہاتھ پھیرنے لگ گیا۔

’وہ بھاگنے والی نہیں ہے وہ نیک لڑکی ہے۔ ‘ اب گلزار کانپ بھی رہا تھا۔

’اوئے! کوئی باپ کہتا ہے کہ اس کی بیٹی نیک نہیں ہے چل یہاں سے۔ تجھے پتا نہیں کہ شاہ صاحب کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی شکایت درج نہیں ہوتی۔‘ تھانیدار اپنی کرسی سے اٹھ کر سامنے والے دفتر میں چلا گیا۔


’تھانیدار صاحب کیسے آنا ہوا؟‘ شاہ جی نے بازوؤں پہ پڑے ہوئے صافے کو جو آیت ا لکرسی کی خطاطی سے سجاہوا تھا ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔

’شاہ جی ہم تَو آپ کے غلام اور خدمت گزار ہیں لیکن ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ پتا نہیں چل رہا کہ کیسے زبان پر لاؤں۔‘

شاہ جی نے نوکروں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔ ’اب بتاؤ۔‘
’جی میں شکایت لے کر نہیں آیا ہوں صرف مسئلے کے حل کے لئے آیا ہوں۔ ‘ تھانیدار کا حلق خشک ہو رہا تھا۔

’چلو بولو اب کہانیاں ہی ڈالتے رہو گے!‘ شاہ جی نے ذرا غصے سے کہا۔
’جی جی، وہ چھوٹے شاہ صاحب نے آپ کے مزارعہ گلزار کی بیٹی کے ساتھ کچھ گڑ بڑ کر دی ہے۔‘

شاہ جی نے ذرا آگے ہو کرکہا۔ ’ابھی تو اس کی عمر بھی پختہ نہیں ہے صرف بیس سال کا ہے۔ اس سے تم مل کر سمجھا دینا کہ ہاتھ ہولے رکھے اور شرارت کم کرے۔‘

’جی ضرور میں چھوٹے شاہ صاحب کو اپنی طرف سے سمجھا دوں گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ساتھ والے گاؤں کے دو لڑکے کہیں دور کھڑے تھے وہ چھوٹے شاہ صاحب کے خلاف گواہی دینے کے لئے تیار ہیں اور انہوں نے گلزار سے بھی مل لیا ہے۔ کہیں یہ لڑکے عورتوں کے حقوق کی تنظیم کو نا بتا دیں وہ لوگ اِس واقعے کی تحقیقات شروع کر دیں گے۔‘

’اس این جی او کی کنجر عورتیں ہماری عورتوں کو بھی بگاڑ رہی ہیں۔ اُن کو اِس گاؤں کی طرف نہیں آنے دینا۔‘ پھر شاہ جی نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔ ’اب گلزار کی بیٹی کہاں ہے؟‘

’اُس کو تَو ہم نے گھر پہنچا دیا تھا۔‘
’تم کَل گلزار کو میرے پاس لے آنا۔‘


گلزار نے شاہ جی کے دالان میں آکر اس کے پاؤں چھوئے اور ذرا دور ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔

’گلزار بات سن، میرا خیال ہے کہ یہ تیری بیٹی کی مرضی کے ساتھ ہی ہؤا ہے بہتر ہے کہ تو اس بات کو یہیں ختم کر دے۔‘

’میری بیٹی تو پولیس کو بے ہوش ملی تھی۔‘ گلزار نے ہاتھ آگے کر کے باندھتے ہوئے کہا۔ ’اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔‘

تھانیدار نے گلزار کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’پولیس کو زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘
گلزار رو پڑا۔ ’میری بیٹی تَو بدنام ہوگئی نا۔ اب اس سے کون شادی کرے گا!‘

شاہ جی نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’یہ کون سی بڑی بات ہے! تھانیدار، وہ جو لڑکا ڈنگروں کو چارہ ڈالتا ہے اس کا نام پتا نہیں کیا ہے!‘

’جی وہ شکیل ہے شکیل۔‘
’گلزار، اگلے ہفتے تیری بیٹی کا نکاح اُس سے پڑھوا دیتا ہوں۔‘

’شاہ جی، مجھے معاف کر دیں میری بیٹی آٹھ جماعتیں پاس ہے ہر ہفتے پورا اخبار پڑھ کر مجھے سناتی ہے۔ شکیل تَو نرا ان پڑھ ہے۔‘

شاہ جی کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ ’اب تُو زیادہ ٹیں ٹیں نہ کر۔ میں تیری بیٹی کا گھر بسا رہاں ہوں تاکہ یہ مسئلہ یہیں ختم ہو جائے۔ کان کھول کے سن، کبھی منیر کا نام نہیں آنا چاہیے۔ اور یہ بھی سن لے کہ شادی کا سارا خرچہ میں کروں گا، اور کیا چاہیے تجھے اور تیری بیٹی کو!‘

گلزار کانپتے ہوئے بولا۔ ’شاہ جی مجھے ایک دن کی اجازت دے دیں۔ ‘ اور وہ الٹے قدم چل کر حویلی سے باہر آگیا۔


گلزار سے بیٹی کی حالت برداشت نہیں ہورہی تھی۔ ’کب تک تو روتی رہے گی، بھوکی پیاسی یہیں بستر پر پڑی رہے گی! شرمیلی میری بیٹی، تیری ماں زندہ ہوتی تو یہ باتیں تجھ سے کرتی جو مجھے کرنی پڑ رہی ہیں۔‘

شرمیلی نے اپنا چپ کا روزہ توڑتے ہوئے کہا۔ ’ابّا کیا بات ہے؟ تم بہت پریشان لگ رہے ہو۔‘
گلزار خاموش تھا جیسے الفاظ ڈھونڈ رہا ہو۔ ’اگلے ہفتے تیری شادی ہے شکیل کے ساتھ۔‘

’ابا تجھے کیا ہو گیا ہے، مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہو۔ قصوروار ہوں نا میں! جرم منیر نے کیا میرے ساتھ اور سزا بھی مجھی کو دے رہے ہو۔‘

’شاہ جی مجبور کر رہے ہیں اس رشتے پر۔ تو ہاں کر دے تا کہ میں بھی شاہ جی کو ہاں کر دوں۔ اور ہمارے پاس چارہ ہی کیا ہے؟ میں شاہ جی کو ناراض نہیں کر سکتا۔ کل شاہ جی کو جا کر ہاں کر دوں گا۔ مجھے پتا کہ تیرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘

شرمیلی خاموش رہی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔

’تیری ماں فوت ہو چکی ہے۔ ایک تیرا بھائی پیدائشی بہرا ہے۔ اس کو مدرسے والوں نے رکھ لیا ہے دوسرا بھائی شہر چلا گیا اور سال میں ایک آدھ بار ہی گاؤں آتا ہے۔ یہاں پر میں ہی تیرا سہارا ہوں۔ ‘ پھر و ہ چند لمبے سانس لے کر بولا۔ ’تو لکھی پڑھی ایک قابل لڑکی ہے۔ میں نے تجھے آٹھ جماعتیں پڑھائیں۔ کسی مزارعہ نے اپنی بیٹی کو آٹھویں جماعت تک نہیں بھیجا۔ میں تیرا بیاہ شکیل سے نہیں کرتا لیکن اب کون تجھ سے بیاہ کرے گا! اب ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ان پڑھ ہے لیکن دل کا اچھا اور شریف لڑکا ہے۔‘

’ابّا میں کیسے بدنام ہو گئی۔ بدنام تَو اُس کمینے شاہ کے بیٹے کو ہونا چاہیے۔ ابّا ہم یہ گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں۔‘

’شرمیلی میں نے ساری عمر اس زمین پر کاشتکاری کرتے ہوئے گزار دی اب اس عمر میں اپنی بوڑھی کمر کے ساتھ کہاں جاؤں گا۔ تمہیں اور یہ دو بھینسیں لے کر کہاں چھپّر ڈالوں گا۔ میں تو ساٹھ کے لگ بھگ ہوں، تیری شادی ہو جائے تَو میں کاشتکاری بھی چھوڑ دوں گا۔ صرف بھینسوں کے دودھ کو بیچ کر گزارہ کر لوں گا۔ نہیں میں یہ گاؤں چھوڑ کر کہیں اور نہیں جا سکتا! تو ہاں کر دے ان مجبوریوں کی وجہ وجہ وجہ۔‘

’ابّا یہ تجھے کیا ہو رہا ہے؟‘ اور وہ اس کے ٹھنڈے جسم سے لپٹ گئی اور ابّا کو سہارا دے کر بستر پر لٹا دیا۔ وہ باپ کے پاس ہی بیٹھی رہی جب تک کہ وہ نیند کی آغوش میں نا چلا گیا۔

شرمیلی رات بھر جاگتی رہی، سوچتی رہی، ستاروں کو دیکھتی رہی۔ وہ ٹمٹماتے اور گہرے بادلوں کے پیچھے غائب ہو جاتے۔ کاش! ان میں سے کوئی میرے مقدر کا ستارہ ہوتا۔ میں صبح ہونے سے پہلے ہی یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔ آگے پڑھوں گی، اسکول میں لڑکیوں کو تعلیم دوں گی۔ شکیل کی دنیا چند ڈنگروں سے شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ میں اس کا ساتھ کیسے اپنی زندگی گزاروں گی! لیکن، لیکن میں کیوں بھاگوں؟ بھاگنا تَو اُس سؤر کو چاہیے جس نے میری عزّت لوٹ لی۔ ’

صبح جب مٹکے میں سے پانی نکالنے کی آواز آئی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ پانچ منٹ یوں ہی گم سم بیٹھی رہی۔ پھر اپنے باپ کی طرف گئی جو بھینسوں کے باڑے کو جانے کے لئے باہر نکل رہا تھا لیکن بیٹی کو دیکھ کر رک گیا۔ ’کیا بات ہے شرمیلی؟‘

’کوئی بات نہیں۔ بس شاہ جی کو بول دینا۔ شرمیلی کی روح شرمیلی کا جسم، پر تیری مرضی۔‘

باپ نے آگے بڑھ کر بیٹی کو بھینچ لیا۔ ’شرمیلی، اب تو مسکرا رہی ہے، رات کو تُو رو رہی تھی۔‘ مٹّی کا کٹورا باپ کے ہاتھ سے نکل کر پاش پاش ہو گیا۔

شرمیلی کچّے فرش پر بکھری ہوئی ٹھیکروں کو دیکھتے ہوئے بولی۔ ’میں اٌن مٹّی کے گھڑوں کو چکنا چور کر دوں گی۔ ابّا قانون کے رکھوالے ان سؤروں کے ساتھ ہیں توکیا ہؤا۔ میں خود اُس سے بدلہ لوں گی، اور وہ تیرے شاہ جی سے بھی، اور اُس جیسے دوسرے سوؤروں سے بھی! چاہے مجھے ساری عمر جیل میں گزارنی پڑے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments