مولانا طارق جمیل: میں جو سچ کہوں تو برا لگے



مولانا طارق جمیل صاحب ان اشخاص میں ایک ہیں جن سے مجھے اختلافات ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے علم و فہم پہ بات کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ اور موجودہ دور میں اسلام کو پھلانے میں اور بہت سے دلوں کو پھیرنے میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔

”میڈیا جھوٹا ہے اس میں بہت زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے“ حضرت مولانا طارق جمیل کے منہ سے چند الفاظ تھے کہ میڈیا کو اوپر نیچے آگ لگ گئی۔ پھر جھوٹ میں مزید جھوٹ کا اضافہ کرکے بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ایک شخص کو منصور بنا دیا گیا۔ اس نے کہا عورتوں میں بے حیائی سے عذاب نازل ہوئی اس میں کوئی شک نہیں کہ رب پاک انسان کو اس سفر میں بارہا یہ یاد دلانے کو کہ تم غلط روش پہ نکلے ہو، اس لئے بارہا عذاب و آزمائش سے گزارتا ہے۔ اور شاید مولانا یہ بات اس ضمن میں کہہ گئے کہ شیطان کا سوفٹ ٹارگٹ عموماً عورت ہی ہوتی ہے۔ پھر مولانا نے مردوں کے بارے میں بھی کہا کہ یہ کون ہیں جو عورتوں سے غلط کام کرواتے ہیں۔

مولانا صاحب نے تین غلطیاں کی اول اس نے میڈیا کے سامنے اس کو ننگا کردیا، حالانکہ یہی حامد میر اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ میں ٹیلی ویژن پر 25 فیصد سچ بولتا ہوں۔ کالم میں پچاس فیصد۔ تو جھوٹ پچیس فیصد ہو یا پچھتر جھوٹ ہے۔ اور جس صحافتی انڈسٹری میں نورالعارفین، ارشاد بھٹی، سلیم صافی، جاوید چودھری، اور بہ زبان خود، خود کو نمبر ون کہنے والی ڈاکٹر فضا اکبر ہوں وہاں جھوٹ نہیں، مہا جھوٹ ہوتا ہے۔ جس میڈیا میں رمضان کو ٹک ٹاک اسٹار اور لیاقت حسین جیسے لوگ اسلامی شخصیات کے ذمرے میں آئیں وہ خود کو جھوٹا کہنے پہ تلملا اٹھے، تو سمجھیں آپ نے اس کے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔

دوسری غلطی مولانا صاحب نے عمران خان کو سچا کہا جو ”سچوں“ کو ہضم نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ بغض عمران میں مبتلین کے عتاب کا شکار ہو گئے۔

تیسری غلطی مولانا صاحب نے دیسی لبرل کو ”عورت پھسلاؤ مومنٹ“ فراہم کی۔ پاکستان میں ایک طبقہ عورتوں کے حقوق کی آڑ میں ہمیشہ جال بچا کر جسم تک رسائی کی کوشش کرتی ہے اور بارہا کامیاب بھی ہوتی ہے اور ان کا بہترین ٹوپک بھی عورتوں کا حقوق ہوتا ہے۔

لبرل لوگ مولویوں کو جاہل، عقل سے بے بہرہ اور جذباتی گردانتے ہیں خود کو لبرل جو کہنے کو سب کچھ سہتے اور اظہار رائے کی آزادی کا قائل ہیں۔ لیکن جتنی چیخ جتنی جذباتیت اور جتنا واویلا یہ طبقہ مچاتا ہے معاذاللہ۔ جس علت پہ آپ دوسروں کو تنگ نظر شمار کرتے ہیں اسی پہ خود کیوں تنگ نظری کا شکار ہوتے ہیں۔ کیوں آزادی اظہار رائے کو بھول جاتے ہیں۔

مولویوں سے مجھے خود ہزاروں اختلاف لیکن تمام علمی اور تعمیری ہیں۔ علم مجھے یہ اجازت کبھی نہیں دیتا کہ میں تنقید سچ اور جھوٹ کوچھوڑ کر خواہشات اور نظریات کی پیروی کروں۔

ایک طبقہ کو دراصل مولانا کی شہرت ہضم نہیں ہو رہی حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ کہ حضور جوابدہ ہوں گے۔

میں جو سچ کہوں تو برا لگے
میں دلیل دو تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی زد میں ہے
یہاں بات کرنا حرام ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments