سندھ حکومت کے غیر منطقی اقدامات اور بیانات


نیت کتنی بھی صاف کیوں نہ ہو مگر کوئی بھی فیصلہ اور کوئی بھی قدم تب تک سودمند ثابت نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے پیچھے انسانی عقل اور منطقی جواز موجود نہ ہو۔ معروضی حالات اور حقائق سے متضاد بیانات اور فیصلوں سے ایک طرف جگ ہنسائی ہوتی ہے تو دوسری جانب ان کے مضر اثرات ملک اور معاشرے کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کچھ ایسے ہی فیصلے، اقدامات اور بیانات میڈیا کی زینت بنے ہیں، جن میں موجود منطق اور عقل کی سطح نے ہمارے اجتمائی معاشرتی فہم اور فراست پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

سندھ حکومت نٕے جب وفاقی حکومت سے آگے نکلنے کی جلدبازی میں سخت لاک ڈاٶن کا اعلان کیا تو دہاڑی دار مزدوروں اور انتہائی غریب افراد کے خانے پینے کا ذرا سا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ حالانکہ جانوروں کو بھی باڑے میں بند کرنے سے قبل مالکان ان کی خوراک کی پلیننگ ضرور کرتے ہیں۔ مگر یہاں تو حال یہ تھا کہ جن علاقوں میں کوئی کورونا کیس نمودار نہیں ہوا تھا، وہاں بھی لاک ڈاٶن کرکے لوگوں کو وقت سے پہلے ہی اتنا تھکایا گیا کہ جب ان علاقوں میں واقعی لاک ڈاٶن کی ضرورت محسوس ہونے لگی تو لوگ بھوک اور گھٹن سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ حکومتی احکامات کو ہوا میں اڑاتے چلے گئے۔ جابجا بھوک کے مارے لوگ لاک ڈاٶن کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آئے اور انتظامىیہ لاک اپ میں ہجوم اکٹھا کرکے خود بھی لاک ڈاٶن کی خلاف ورزی کرنے کی مرتکب ہوتی رہی۔

جب وفاقی سرکار نے لاک ڈاٶن میں نرمی کرتے ہوئے درزیوں کو دکان کھولنے کی اجازت دے دی تو اس اہم سوال کو یکسر نظرانداز کردیا گیا کہ، ”جب کپڑے کے دکانیں بند رہیں گی تو درزیوں کی سلائی کے لیے کپڑے کہاں سے آئیں گے؟“

وفاقی حکومت نے جب لاک ڈاٶن میں نرمی کرنا شروع کی تو سندھ حکومت نے عجلت میں ڈبل سواری پر پابندی لگا دی اور پولیس اور رینجرس کو اس سے مستثنی قرار دے دیا۔ حالانکہ کرونا وائرس کسی کو رعایت نہیں دیتا۔ حکومت کے اس فیصلے سے عوام سخت پریشان ہوا۔ کیونکہ اگر دیہاتوں میں کسی کی بیوی بیمار ہوتی تو وہ بائیک پر بٹھاکر ہسپتال لے جانے کے بجائے مہنگی ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنے پر مجبور تھا۔ یہ فیصلہ کرنے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ موٹر سائیکل پر شوہر کے ساتھ بیوی بیٹھ نہیں سکتی مگر گھروں میں ان کو ایک دوسرے سے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔

عوامی امداد کی تقسیم کے لیے جب وزیر اعظم نے ٹائیگر فورس کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی نے اس فورس کو سیاسی فورس قرار دے دیا تاہم اسی وقت سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امداد یو سی چیئرمن اور پی پی کے جیالے بانٹ رہے تھے۔ جسے نہ بانٹنے والے دکھا رہے تھے اور نہ ہی لینے والے دیکھ رہے تھے؟ إ

غربت، افلاس اور بچوں کی اموات کے واقعات سے مشہور علاقے تھرپارکر کے دو پارلیمینٹرین کے حالیہ بیانات بھی حقائق اور عقلی منطق کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ایک ایم پی اے نے فرمایا: ”بارشوں کی سیزن میں تھری کھیتوں سے جو باجرہ کسانوں کو ملا تھا وہ بھی ابھی تک لوگوں کے پاس موجود ہے۔ مزید براں تھری مزدور طبقہ بیراج علاقہ سے گندم کی کٹائی کرکے لوٹا ہے، لہذا انہیں کسی حکومتی امداد کی ضرورت نہیں“ ۔ مذکورہ ایم پی اے صاحب کو یہ بیان دیتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پچھلے سال ٹڈی دل کے متواتر حملوں نے باجرہ کی فصل کو تقریباً تباہ کردیا تھا۔ اگر تھوڑی بہت بچی بھی ہوگی تو کیا اب تک پڑی ہوگی؟ کیا اس عرصے میں لوگ گھاس کھاکر زندہ رہے ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی کے ایک ایم این اے نے پچھلے دنوں بیان دیا کہ ”تھر میں امداد کی ضرورت شہروں میں بسنے والوں کو ہے، دیہاتی لوگوں کو نہیں“ ۔

ایم این اے صاحب اس سادہ حقیقت کو بھی بھول گئے کہ شہر ہوں یا دیہات، معاشیات کی زنجیر میں ایک دوسرے پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ موصوف اس حقیقت سے بھی بے خبر رہٕے کہ شہروں میں عموماً آسودہ طبقے کی آبادی غربت زدہ طبقے سے توازن میں ہوتی ہے۔ مگر دیہاتوں میں عموماً زیادہ تر غریب لوگ بستے ہیں۔ جوکہ لاک ڈاٶن کے باعث بند مویشی منڈیوں میں نہ دودہ بیچ سکتے ہیں اور نہ ہی بچی کھچی اجناس وغیرہ۔ آخر یہ لوگ سرکاری امداد کے مستحق کیوں نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments