بہاول پور کا یونیورسٹی چوک اور اوچ شریف کی دو مرحوم انقلابی روحیں



فروری 2011 ء کے ابتدائی دنوں کا ذکر ہے۔ اپنے پندرہ روزہ اخبار ”نوائے اوچ“ کے ڈیکلریشن کے حصول کے لئے اکثر و بیشتر ہمارا بہاول پور کی ضلعی انتظامیہ کے دفاتر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ضروری امور کی انجام دہی کے بعد ہمارا بہترین مشغلہ یونیورسٹی چوک پر لگی کتابوں کی نمائش پر جا کر مہنگی کتابوں کو تکنا اور سستی لیکن معیاری کتابوں کو خریدنا تھا۔ ماضی قریب کے ان خوبصورت دنوں کی یاد اور ملنے والے خوبصورت اور پیارے لوگوں کی بازآفرینی کبھی ہمارے دل سے محو نہ ہو سکے گی۔

ہماری ذاتی کتب میں زیادہ تر تعداد ان کتابوں کی ہے جو ہم نے اپنی انہی آنیوں جانیوں کے دوران بہاول پور کی اس کتابی نمائش سے خریدی تھیں۔ گاہے گاہے اگر بہاول پور میں تین چار روز کا قیام ٹھہر جاتا تو کوشش ہوتی کہ اتوار کی تعطیل اس میں لازم آئے۔ کارن اس کا یہ تھا کہ ہماری آپی جمیلہ ناز بہاول پور میں وکالت کرتی ہیں۔ اتوار کو چونکہ چھٹی کا دن ہوتا اور ان کو بھی فراغت میسر آتی تو ہم دونوں کتابوں کی نمائش گاہ پر جا کر اپنے پسندیدہ مصنفین کی کتابیں خریدتے اور گھر جا کر آپس میں تقسیم کر لیتے۔

انہی دنوں ہمارے دوست عامر لعل کی تعیناتی غالباً ڈی پی او آفس میں ہو گئی، سو بہاول پور میں ہمارے شناسائیوں کے خوبصورت گلدستے میں ایک اور دلستاں پھول کا اضافہ ہو گیا۔ اس وقت تعلقات میں عامر کی ”افسری“ آڑے نہیں آئی تھی اور ہماری ”انقلابی روح“ کے ساتھ ساتھ اس کی ”عقابی روح“ بھی بیدار تھی۔ ڈیکلریشن کے حصول میں اس کا تعاون اور بھاگ دوڑ ہمیشہ ہمیں یاد رہے گی۔ 6 فروری 2011 ء کو ہم ڈی سی او آفس میں اپنے کام سے فارغ ہر کر عامر کے پاس گئے، اتفاق سے اس کے ہاں بھی راوی چین ہی چین لکھتا تھا سو ہم نے یونیورسٹی چوک پر کتابوں کی نمائش میں جانے کا ارادہ کیا۔

ہماری دلچسپی شروع سے ہی اہم سیاسی شخصیات کی خود نوشت سوانح حیات اور تاریخ کے موضوعات پر کتابیں پڑھنے میں تھی۔ اس دن نمائش گاہ میں نئی کتابیں دیکھ کر ہمارا دل باغ باغ ہو گیا۔ ہم نے اپنی جیب کے مطابق چند کتابیں لیں۔ عامر نے ایک کتاب ”داستان مسولینی“ خریدی اور اس کے پہلے صفحہ پر کچھ لکھ کر ہمیں معنون کر دی۔ اس نے جو کچھ لکھا، وہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔

”صدیوں کا بے لاگ سفر اور میری نوع کی فکری پیچیدگی نے درد کی کوفت زدہ آگاہی سے بچنے کے لئے جانے کیا کیا ذہنی اختراعیں ایجاد نہ کیں۔ افلاطون کا نوحہ جمہوریہ، کارل مارکس کا نعرہ عدم استحصال اور مسولینی کا واویلا آمریت میری نوع کا درد سے دور بھاگنے کا نتیجہ تھی۔ وہ درد جس میں ہم تمام ہمیشہ سے مبتلا ہیں مگر شروع ساعت سے بے زار۔ طاقت، اقتدار، حرص کی شیطانی خواہشوں نے ہمیں ہمارے عظیم مقصد سے الگ کر دیا ہے۔

معاشرہ انحطاط پذیر ہے اور انسان فانی۔ میں اور نعیم بھی اسی اداس سلسلے کی اک کڑی ہیں۔ باکونن کی طرح شاطر، مارکس کی طرح انقلابی، لینن کی طرح عملی اور ماؤ کی طرح پرعزم۔ ہمیں اس درد کو مزید برداشت نہیں کرنا۔ ہمیں ہمارے طبقے کے لوگوں اور نوع انسانی کے درد کو سمجھنا ہے۔ بہت ہو چکی نا انصافی۔ اب کچھ نہیں، بہت کچھ بدلنا ہے، کیوں نہ ہم اس اضطراب میں اپنا حصہ دل کھول کر دیں۔“

زیر نظر اظہاریہ ہم ہرگز نہ لکھتے اگر آج 28 اپریل نہ ہوتا۔ مذکورہ بالا ساری ”یاوہ گوئی“ تحریر کرنے کی ضرورت کچھ یوں پیش آئی کہ اٹلی کے فسطائی آمر، رومن سلطنت کی عظمت کے ”خود ساختہ“ وارث اور دوسری جنگ عظیم کے مافوق الفطرت کردار مسولینی کی ”مافوق الفطرت“ موت کی ”پلاٹینم جوبلی“ کے موقع پر ”نوائے اوچ“ کے لئے رپورٹ تیار کے لئے آج ہمیں ”داستان مسولینی“ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کتاب کا پہلا صفحہ پلٹتے ہی عامر کا ”آٹو گراف“ سامنے آ گیا۔

معلوم نہ تھا کہ 75 سالہ تاریخی واقعہ کی جانکاری لیتے سمے 9 سالہ کہولت کی خوشبو ہماری روح میں ہمکنے لگے گی۔ داستان مسولینی پڑھتے پڑھتے خیال آیا کہ تاریخ و فلسفہ کا رومانس اوڑھ کر کتابی دنیا میں جینے والی دو انقلابی روحوں کو محض 9 سال میں ہی زندگی کی تلخ حقیقتوں اور غم روزگار کے خرخشوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے بانجھ بنجر معاشروں کی ہم جیسی ”اداس“ نسلوں کے لئے یہ زندگی کتنی بے رحم اور سفاک ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments