تقریر جمیل کے آفٹر شاک


آج کل سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، ہر طرف بس مولانا طارق جمیل صاحب کے ہی چرچے ہیں۔ میڈیا پر کی گئی ان کی کچھ مبینہ متنازع گفتگو سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہے اور وہ اپنے اختلافات کا اظہار کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے مولانا صاحب کے حامیوں کو صبر سے کام لیتے ہوئے اس اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہوگا اور شخصیت پرستی سے نکل کر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ مولانا صاحب بندہ بشر ہیں اور ہر بشر کی طرح ان سے غلطی کا احتمال بہرحال موجود ہے۔ آپ دین کی لئے کسی کی خدمات یا نیکی کو بنیاد بنا کر دوسروں سے ان کے اعمال بارے سوال نہیں کرسکتے۔

اس ساری صورتحال میں مولانا صاحب سے بھی ایک گزارش ہے کہ حضرت آپ کو انفرادی سطح پر کسی بھی شخص کو پسند یا نا پسند کرنے اور سیاسی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے مگر اجتماعی طور پر آپ کی پہچان تبلیغی جماعت سے ہے اور تبلیغی جماعت کو حاصل امتیاز کی ایک بنیادی وجہ ان کی کسی بھی سیاسی جماعت، شخصیت، حکومت یا فرقہ واریت سے لا تعلقی رہی ہے۔ ایسے میں آپ کے اس بیان کہ ”عمران خان کو اجڑا چمن ملا وہ اکیلا کہاں تک آباد کرے“ کا بجا طور پر سیاسی پہلو نکالا جا سکتا ہے۔

آپ کے اس بیان سے ان تمام لوگوں کی جذبات کو یقیناً ٹھیس پہنچی ہوگی جنہوں نے پچھلی حکومتوں کو ووٹ دیا وہ بھی ایسے میں جب کہ تمام معاشی اشاریے بھی آپ کی اس بات کی نفی کرتے ہوں۔ آپ کی پہچان تبلیغی جماعت کے ایک معزز مبلغ کی ہے لہٰذا براہ کرم ایسے بیانات دینے سے اجتناب کریں جو آپ کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت کی ساکھ کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہوں۔

اب بات کرتے ہیں اس ساری صورت حال میں الیکٹرانک میڈیا کے رویے کی۔ میڈیا نے اس بات کا بہت غصّہ کیا کہ مولانا صاحب نے میڈیا کو جھوٹا قرار دیا یہاں تک کہ کچھ میڈیا اینکرز مولانا صاحب سے معافی منگوانے تک میں کامیاب رہے۔ شاید مولانا صاحب کو سارے میڈیا کو جھوٹا کہنا بھی نہیں چاہیے تھا کیونکہ اچھے برے لوگ ہر شعبہ میں پائے جاتے ہیں۔ میڈیا میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو سچ بولنے کے عادی ہیں، ایمانداری سے اپنا کام کرتے ہیں اور اس بنا پر اپنی نوکریوں تک سے ہاتھ دھو چکے ہیں مگر بہرحال میڈیا کا ایک بہت بڑا حصّہ اپنے مفادات کے مطابق سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتا آیا ہے اور ابھی تک کر رہا ہے۔

پورا پورا میڈیا ہاؤس ایک مخصوص ایجنڈا پر کام کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے صحافتی تعلیم تو کیا بنیادی تعلیم سے نابلد لوگوں کو پرائم ٹائم شوز دیے گئے ہیں جو اپنی نوکری کا حق ادا کرنے کے لئے دن رات جھوٹی کہانیاں گھڑتے اور الزام تراشی کرتے نہیں تھکتے مگر کیا کبھی کسی نے ایسے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز سے کسی ثبوت یا معافی کا مطالبہ کیا ہے؟ یا کم از کم ان صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے پروگرامز میں شرکت سے انکار کیا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کا جس پر زور چل جائے اس کے سامنے پہاڑ بن کے کھڑا ہو جاتا ہے اور طاقتور کے سامنے ان کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ پورے ملک میں جو بات زبان زد عام ہوتی ہے یہ لوگ اس کا تذکرہ تک نہیں کر پاتے اور اگر ذکر کریں بھی تو اشاروں میں کرتے ہیں۔ بہرحال مولانا صاحب کی اس بات کی تعریف کرنا بنتا ہے کہ انھوں نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپنی بات پر معافی مانگ کر ظرف کا مظاہرہ کیا ورنہ ہمارے میڈیا میں تو اتنا ظرف کبھی بھی نہیں رہا کے کہ اپنے جھوٹ پر شرمندگی کا اظہار کر سکے۔

تیسری اور شاید سب سے اہم بات جو مولانا صاحب نے کہی جس پر لبرلز اور خاص طور پر بہت سی حقوق نسواں کی عملبردار خواتین سراپا احتجاج ہیں کہ انھوں نے COVID۔ 19 کو خواتین کے بے پردگی اور بے حیائی پر اللہ کا عذاب قرار دیا۔ میں ذاتی طور پر بھی مولانا صاحب سے اس بات پر اختلاف کرتا ہوں کہ اگر COVID۔ 19 آزمائش کی بجائے اللہ کا عذاب ہے تب بھی اسے کسی ایک صنف یا طبقہ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ اللہ کا عذاب ہے تو اس کا ذمے دار ہر طبقے اور پیشے سے تعلق رکھنے والا ہر فرد ہے۔

نا انصافی کرنے والا، دوسروں کے حقوق غصب کرنے والا، ظلم کرنے والا، رشوت خور، جھوٹا، ملاوٹ کرنے والا، فرقاوارانہ نفرت پھیلانے والا، عزتیں پامال کرنے والا غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا ہر فرد اس کا ذمے دار ہے۔ ایسے میں صرف عورتوں کی بے حیائی کا تذکرہ کرنا شایدنامکمل بات تھی اس لیے کچھ لوگوں کو نہ مناسب لگی ہو۔ مگر کچھ لبرلز کا اس پر شدید رد عمل سمجھ سے بالاتر ہے یہاں تک کہ کچھ نے اسے عورتوں کے بنیادی حقوق پر حملہ قرار دیا اور کچھ ناچ گانے کے دفاع میں ڈٹ گئے۔

شاید انھیں لگا کہ مولانا طارق جمیل کی تذلیل کرنے سے وہ لوگ ملائیت کے خلاف جنگ جیت جائیں گے۔ جب کہ مولانا صاحب نے جو بات کہی وہ ان کے اپنے الفاظ نہیں، بے حیائی مولانا صاحب کی کوئی ذاتی ناپسندیدگی نہیں بلکہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے کہ ”کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو، یا چھپی ہوئی۔“ (سورہ اعراف : 33 ) اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ”ایمان کی 70 سے زائد (کچھ احادیث میں 60 بھی آیا ہے ) شاخیں ہیں اور حیا ان میں سے ایک ہے۔“ (صحیح مسلم : 152۔ ایک اور حدیث ہے کہ ”ہر نیکی صدقہ ہے اور آخری چیز جو اہل جاہلیت نے نبوت کے کلام سے حاصل کی ہے، وہ یہ ہے : جب تم شرم و حیا کو چھوڑ دو تو جو چاہے کر گزرو۔ مسند احمد: 9653“ )

یہاں کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں، کوئی فرشتہ نہیں، ہر کسی کی اچھائی اور گناہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے وہ چاہے معاف کرے یا چاہے پکڑ کرے۔ کسی کو حق نہیں کہ لٹھ لے کر دوسروں پر اپنی مرضی کی اصلاح مسلط کرے یا دوسروں کو نیک اور بدکار ہونے کے کی سند بانٹتا پھرے۔ مگر اللہ اور اس کے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو گناہ قرار دے دیا وہ گناہ ہی کہلاے گا۔ اگر آپ کسی دین کی پیروی کرتے ہیں تو آپ کو اس دین کے اصول و ضوابط کو بھی تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ آپ اس پر عمل پیرا ہوں یا نہ ہوں وہ آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے مگر آپ اپنی سہولت کے لئے کسی گناہ کو بنیادی حق یا روشن خیالی کا لبادہ اڑھا کر نیکی میں تبدیل نہیں کر سکتے۔

احتلاف کیجئے مگر دلیل کے ساتھ، نفرتوں اور خواھشات کے سہارے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments