علما: انبیا کے وارث سے لے کر درباری ملا تک کا سفر


انسان مسلسل ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس مراحل میں اس نے اپنے رہن سہن کو تبدیل کیا، رسم ورواج کو تبدیل کیا، اور سب سے بڑھ کر اپنی سوچ کو بھی تبدیل کیا۔ تبدیلی کا یہ سفر ابد تک جاری رہے گا۔ پتھر کے زمانے کے انسانوں کی سوچ صرف جانوروں کو شکار کرنے اور پیٹ پالنے تک محدود تھی۔ لیکن ان میں سے ہی کچھ نے اپنی ذہنی صلاحیتوں سے پہیہ ایجاد کیا اور اسی ایجاد سے انسان ترقی کے سفر پر گامزن ہوا۔ ترقی کی اس دوڑ میں انسان ایسے شامل ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جدوجہد میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگے، اگر کوئی پھر بھی مقابلے میں شامل رہا تو اس کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا۔

ترقی کا یہ سفر محلے کی مسجد میں موجود منبر پہ بیٹھے عام سے کپڑوں میں ملبوس سر پہ عمامہ باندھے مولوی صاحب پہ بھی اثر انداز ہونے لگا۔ برسوں پہلے جن کی بزرگی اور دانائی سے لوگ مستفید ہوتے تھے اب ان کی حکمت پہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔ جن کے خدا کے حضور ہاتھ اٹھانے سے لوگوں کی مشکلیں حل ہوتی تھیں اب وہی لوگوں کے لئے مشکل بنے ہوئے ہیں۔ برسوں پہلے علما کے پاس لوگ دور دور سے علم حاصل کرنے آتے تھے اور ایسے انکساری اور عاجزی دکھاتے تھے جیسے ان کو دو جہان کا خزانہ مل گیا ہو اور اس خزانے کی کنجی مولانا کے پاس ہو۔

پھر وقت بدلا انسان تین طبقات میں تقسیم ہوگئے۔

پہلا طبقہ جو اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اپنے مولوی صاحب کی بدولت اور دعاؤں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جن کے نزدیک مسجد میں بیٹھے مولوی صاحب کی بات کسی بھی حاکم وقت کی بات سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں میں غوروفکر کی کوئی استعداد نہیں ہوتی۔ عقل و دانش اور حق و باطل کو پرکھنے کی صلاحیت نا ہونے کے باعث ان کے نزدیک مولوی صاحب کی صوابدید ہی حرفِ آخر ہے۔

دوسرا طبقہ ایسا طبقہ ہے جو آزادی پسند ہے۔ ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ایسی زندگی کا خواہش مند ہے جس میں وہ خود کو ترقی پسند کہلوا سکیں۔ اسی ترقی کی ڈور میں انہوں نے ہر بیڑی جو ان کے پیروں میں باندھی جا سکتی تھیں ان کو توڑنا چاہا۔ اور سب سے بڑی زنجیر چونکہ یہ علما ہیں جو کہ حق بات کہتے اور برائی سے منع کرتے ہیں تو سب سے زیادہ مخالفت ان کی کی گئی۔ یہی علما کرام اب ملا کہلوائے جانے لگے۔ لیکن صرف یہی پر اکتفا نہیں ہوا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کردار کشی کے لئے ہر انسانی کمزوری کے تحت ہونے والی غلطی کو اچھالا جانے لگا۔ اس میں سب سے اہم کردار الیکٹرونک میڈیا سے لیا گیا۔ ایسا پروپیگنڈا شروع کیا گیا جس سے لوگوں کی اس طرح سے ذہن سازی کی جائے کہ وہ علما سے نفرت کرتے ہوئے پروان چڑھیں۔ جو جو اس نفرت کو پھیلانے کا سبب بنا وہ لبرل اور ماڈرن کہلوایا جانے لگا اور جو اس دوڑ میں شامل نا ہوا وہ جاہل کہلوایا۔ اب ظاہر ہے خود کو جاہل کہلوانا مشکل امر ہے اور لبرل اور ماڈرن کہلوانا قدرے آسان امر ہے تو اکثریت نے دوسرے امر کو ترجیح دی اور ترقی میں شامل ہوئے۔ اسی طرح انہیں لوگوں کی بدولت علما جو انبیا کے وارث تھے درباری ملا کہلوائے۔

تیسرا طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو صحیح اور غلط کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور ایک طرف تو اپنی آخرت تباہ ہونے سے ڈر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی دنیا داری کو خطرہ ہے۔ ایک طرف انہیں پہلے طبقے کی طرف سے کافر کہلوائے جانے کا ڈر ہے اور دوسری طرف سے ان کو زمین تنگ ہونے کا ڈر ہے۔ چونکہ ہی طبقہ دین و دنیا کو ساتھ لے کے چلنا چاہ رہا ہے اس لئے یہ طبقہ اپنے عقائد پر قائم اور اپنی روایات کو ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ لیکن جو مسئلہ انہیں درپیش ہے اس کو زیادہ خراب پہلے والے دو طبقات نہیں کر رہے بلکہ اسی مسئلے کے فریق کر رہے ہیں۔ علما کی تذلیل میں عالم ہی پیش پیش ہیں۔ اب بات دین سے ہٹ کر فرقوں پہ آچکی ہے اور چونکہ ہر کوئی اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے تو یہ ترقی کا سفر نا ختم ہونے والی تنزلی کی طرف گامزن ہے۔

اسی کشمکش کی وجہ سے نوجوان دین سے نالاں ہیں۔ علم محدود ہوتا جا رہا ہے۔ علما کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ ہمارے بچے آنے والے کچھ برسوں میں ایسی قوم بنائیں گے جو اسلام کو صرف کتابوں میں ہی پڑھیں گے۔ اسلام عمل سے اور اخلاق سے ناپید ہو جائے گا۔ ہمیں فکر کرنی چاہیے اس وقت کی اور سوچنا چاہیے کہ ترقی کی آڑ میں ہم کس راہ کے مسافر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments