سیاسی شہ مات


شطرنج کی بساط پر شہ مات سے بچنے کے لیے اپنے مہروں کی قربانی دینا ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے بلکہ بساط پر موجود تمام مہروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ بادشاہ کے لیے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے اگرانکواپنی جان کی قربانی بھی دینی پڑی تو دیں گے اورکھیل کے دوران ایساہی ہوتا ہے جب بھی بادشاہ کو مات ہونے لگتی ہے تو کوئی ناکوئی مہرہ اپنی قربانی دے کر بادشاہ کو اس مات سے بچا لیتا ہے۔ بساط پر ہونے والی جنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک بادشاہ بساط پر موجود ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بساط چاہے شطرنج کی ہویا پھر سیاست کی ہو اس میں کسی مہرے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ہر مہرہ اپنے بادشاہ کی حفاظت کی خاطر صرف اور صرف قربانی دینے کے لیے ہی بساط پر موجود ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کے کھیل میں بادشاہ ہی ناگزیر ہے اگر بادشاہ سلامت ہے تو پھر کسی کو بھی مہرہ بنا کے بساط پر اپنی مرضی کی چالیں چلی جاسکتی ہیں۔ دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے مخالف کو شہ مات دی جاسکتی ہے۔ ویسے یہ بات غیر ضروری ہے مگر پھر بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرکبھی غورکریں تواس کھیل میں عام آدمی جس کو عوام کہتے ہیں کے نام کا کوئی مہرہ نہیں ہے۔

شاید اس کھیل کو ایجاد کرنے والے شخص کو معلوم تھا کہ بادشاہوں کے کھیل میں سب سے غیر ضروری مہرہ عوام ہی ہوتا ہے اس لئے اس نے اس مہرے کو بساط پر کوئی خانہ دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یا پھر وہ خوفزدہ تھا کہ اگر عوام نام کے مہرے نے دوران کھیل بادشاہ کو بچانے سے انکار کرتے ہوئے اپنی قربانی دینے سے انکار کردیا توکیا ہوگا۔ کیونکہ عوام تو بالآخر عوام ہی ہوتی ہے ایک حد تک قربانی کا جذبہ رکھتی ہے۔ شاید مروجہ سیاست کی بساط پر بھی اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام نام کے مہرے کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔

بساط سیاست کی ہو یاپھر شطرنج کی ہوکا پہلا اصول یہ ہے کہ اس پر ہر چال بے رحمی کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ بادشاہ اپنی جگہ پر بیٹھ کر اپنے سامنے اپنے مہروں کوپٹتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے اور پرسکون رہتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ یہ مہرے اس بساط پر اس لئے موجود ہیں کہ اس کی خاطر قربانیاں دے سکیں اس کو بچا سکیں۔ جبکہ مخالف بادشاہ کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنے مہرے مار سکتا ہے مارلے اس طرح مخالف بادشاہ کی طاقت میں کمی ہوتی ہے وہ کمزور ہوتا جاتا ہے اورایک وقت آتاہے مخالف بادشاہ بساط پرموجودہوتے ہوئے بھی قابل رحم حالت میں ہوتا ہے۔ اور یہ بے چارگی بادشاہوں کے شایان شان نہیں ہوتی اس لیے شاید ایسے مرحلے پرکھیل ختم کرکے نئی بساط بچھانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

موجودہ سیاسی بساط پر بھی بادشاہ کے سارے مہرے ایک ایک کرکے پٹتے جارہے ہیں۔ سنا ہے ایک مہرہ پٹنے کے بعدتازہ کمک منگوا لی گئی ہے اور دو مزید مہروں کا بساط پر اضافہ ہوا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ دونئے مہروں سے بادشاہ کی طاقت میں اضافہ ہواہوگا۔ بساط پر موجود دیگر مہروں کو تقویت ملی ہوگی اور ایک بارپھر نئی چال چلنے کا حوصلہ ملا ہوگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ مہرے بھی پٹ گئے اور نئی چال بھی دشمن کو زیر نا کرسکی تو پھر کیا ہوگا؟

اب تک کھیلے گئے کھیل کے مطابق شاید اس طرح کی صورتحال میں ایکبارپھر نئے مہروں کو بساط پر لایا جائے گا۔ اور شاید یہ سلسلہ گزشتہ دوسال کی طرح مزید تین سال تک اسی طرح چلتا رہے۔ اور کھیل کھیلنے والوں کی تمام تر توانائیاں صرف اور صرف بادشاہ کو بچانے کے لئے استعمال ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں ہوگا۔

طے ہوگیا کہ کمزور بادشاہ کا انتخاب کسی صورت مناسب نہیں ہوتا۔ یا اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بادشاہ کا کردار ادا کرنے کے لئے جس شخص کو منتخب کیا گیا وہ انتخاب ٹھیک نہیں تھا۔ اوراسی غلط انتخاب کے سبب بساط پر جو بھی چال چلی گی سو نہایت بری چلی گئی۔ ہر چال الٹ ہوئی اور فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوا۔ حالانکہ بساط بچھانے والوں نے بڑی محنت کی تھی اور بظاہر بساط پر کوئی طاقتورحریف بھی سامنے موجود نہیں تھا سب حریف اس بار کھیل کا حصہ ہی نہیں بن سکے یا نہیں بنائے گئے۔

اب خالی بساط پر بھی اگر کوئی چال کامیاب نا ہوسکے تو پھر کس کو دوش دیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بادشاہ کے روپ میں بساط پر موجود بادشاہ یہ بازی جیتنا ہی نہیں چاہتا۔ اس لیے وہ کوئی ایسی چال ہی نہیں چل رہا۔ یاپھر یہ بھی تو سکتا ہے کہ بادشاہ چاہتا ہوکہ ایک نئی بساط بچھائی جائے اور وہ اپنے جوہر نئی بازی میں دکھائے۔ اور اپنی چالوں سے وہ نئی بازی الٹ دے۔ تو پھربساط پربچھی اس بازی کا کیا ہوگا؟ یہ بازی بھی تو اہمیت رکھتی ہے کھیلنے والوں نے اس بازی پربھی بڑا داؤ لگا رکھا ہے اس لیے یہ بازی ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اوراسی لئے شاید اس بار آخری پیادے تک یہ بازی کھیلی جائے۔

بہرحال شطرنج کا ایک اصول بڑا واضح ہے کہ شہ کی حالت میں کوئی ایسی چال چلنا بہت ضروری ہے جو بادشاہ کو شہ کی حالت سے نکال دے۔ کھیلنے والا بادشاہ کو شہ سے محفوظ کرنے کے علاوہ کوئی چال نہیں چل سکتا۔ اور اگر بادشاہ کو شہ سے نکالنا ممکن نا ہوتوشہ مات ہوجاتی ہے اور کھیل ختم ہوجاتا ہے بساط سمیٹ لی جاتی ہے۔ اوراس وقت سیاسی بساط پر بھی صورتحال یہی ہے کہ بادشاہ شہ کی حالت میں ہے اور یہ بازی کھیلنے والے بادشاہ کو شہ سے نکالنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں مگر بازی ہاتھ نہیں آرہی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر شہ مات ہوئی تو یہ کس کو ہوگی؟ بساط پر موجود بادشاہ کو مات ہوگی یا پھر یہ بازی کھیلنے والے کو مات ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments