جنریشن گیپ: والدین ذمہ دار ہیں


وبا کے دنوں میں ہمارے لیے سب سے خوشی کی بات یہ رہی کہ والدین کو اب پتہ چلا کہ ہم واقعی والدین ہیں اور ہمارے بچے بھی ہیں۔ آپ کہیں گے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی، کیا پہلے والدین کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کے بچے بھی ہیں؟ تو جناب عرض یہ ہے کہ پہلے والدین گھر کو ہاسٹل یا ڈے کیئر سنٹر کی طرح چلا رہے تھے۔ صبح سات بجے بچوں کو اٹھایا، منہ ہاتھ دھلایا اور سکول کی گاڑی میں بیٹھا دیا، دو تین بجے جب بچے واپس آئے تو کھانا کھلا کر مولوی صاحب کے پاس سپارہ پڑھنے بھیج دیا اور وہاں سے واپسی پر ٹیوشن والی آنٹی کے پاس بھیج دیا۔

شام کی ازان کے بعد جب بچے واپس آئے تو کھانا کھلایا اور بستروں میں زبردستی ڈال دیا کہ جلدی سو جاو، صبح سکول جانا ہے۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کے ساتھ یعنی کمی بیشی کے ساتھ پاکستان کے ستر سے اسی فیصد گھرانوں میں یہی معمول چلتا ہے۔ چھٹی والے دن بچے دن چڑھے تک سوتے ہیں اور پھر دوپہر کو ناشتہ کرنے کے بعد دوستوں کے ساتھ کرکٹ یا کچھ بھی کھیلنے نکل جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں والدین کہاں اور کس وقت اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے تھے؟ والدین کا کام بس اتنا ہوتا تھا کہ ہر شخص کو وقت پر فیس پہنچاتے رہیں تاکہ وہ آپ کے بچے پالتا رہے۔ سکولوں میں والدین کی شکایات کا ایک بڑا حصہ بھی یہی ہوتا تھا کہ جی ہم آپ کو اتنی بھاری فیس ادا کرتے ہیں اور بچوں کی یہ حالت ہے، وہ حالت ہے۔

برا ہو وبا کا کہ اس نے والدین کو واقعی والدین بننے پر مجبور کر دیا، انہیں نہ صرف بچوں کی شکلوں کا پتہ چلا بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ فلاں کے چہرے پر کون سا نشان کہاں اور کیوں ہے۔ اسی وبا نے بچوں کو اتنا وقت دیا کہ وہ اپنے والدین کے چہرے غور سے دیکھ سکیں دوسری طرف والدین کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بچوں کو خود اپنا وقت دیں اور اسی وقت دینے میں والدین کو اپنے بچوں کے بارے بہت سی نئی معلومات میسر ہوئیں۔ انہیں نہ صرف اپنے بچوں کی عادات کا پتہ چلا بلکہ انہیں کسی حد تک بچوں کے خیالات تک بھی رسائی ہوئی۔

بچوں اور بڑوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع ملا بلکہ دونوں ایک دوسرے کو حقیقی معنوں میں کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں یہ بھی دونوں پر عیاں ہوا۔ وہ دادیاں اور نانیاں جو اپنے پوتوں اور نواسوں کو گود میں کھلانے کی حسرت میں مری جا رہی ہوتی تھیں اب مہینہ بھر سے واقعی مرنے والی ہوئی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے، واپس جاو، لیکن کیسے جائیں کہ لاک ڈاؤن کا زمانہ چل رہا ہے۔ والدین جو آج تک سکول، ٹیوشن سنٹر اور مولوی صاحب کو فیس دے کر یہ سمجھتے تھے کہ وہ بچے کی بہت اچھی تربیت کر رہے ہیں، اس تربیت کے سارے جوہر بھی کھل کر ان کے سامنے آئے ہیں اور انہیں پتہ چل رہا ہے کہ کس بچے کی کیسی ترتیب ہو رہی ہے اور یہ آنے والے دنوں میں کیا کیا گل کھلا سکتا ہے۔ اس ساری صورت حال کا سب سے اچھا ایک پہلو اور بھی ہے کہ جنریش گیپ کی برسوں چلنے والی گفتگو اپنے اختتام کو پہنچی اور پتہ چلا کہ جنریشن گیپ کے اصل ذمہ دار آج کے والدین ہیں۔

سکول کالج جانے والے بچے جب کوئی سوال کرتے تھے تو انہیں بڑی آسانی سے ٹال دیا جاتا تھا کہ کل اپنے اسکول یا کالج میں استاد سے پوچھ لینالیکن اب جبکہ بچے چوبیس گھنٹے والدین کے پاس اور سامنے ہیں، طرح طرح کے سوالات پوچھتے ہیں جن سے والدین عاجز آئے ہوئے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنے بچوں کو کس طرح سے مطمئن کریں۔ ہر دور کے والدین نے یہ کہہ کر اپنا دامن صاف بچانے کی کوشش ضرور کی ہے کہ نئی نسل بہت تیز اور سمجھدار ہے اور ہم اپنی کم تعلیم کے ساتھ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن دو سوالوں کے جواب کبھی نہیں سوچے گئے۔

پہلا سوال یہ کہ کیا بچہ ماں کے پیٹ سے اتنا ذہین پیدا ہوا ہے یا وراثت میں ذہانت لے کر پیدا ہوا ہے؟ اگر ایسا کچھ ہے تو ماں باپ کو اس ذہانت کے درجے تک پہنچنے میں کیا مسئلہ ہے جبکہ وہ بچہ انہی کی ذہانت لے کر پیدا ہوا ہے؟ چلیں اگر اس سوال کا جواب نفی میں بھی ہو اور ہم مان لیں کہ بچہ نہ ماں کے پیٹ سے ذہین پیدا ہوا ہے اور نہ وارثتی ذہانت کا حامل ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اپنے سکول کالج کی پڑھائی اور اپنے گھر کے ارد گرد کے ماحول نے اس میں تیزی اور ذہانت پیدا کر دی ہے، یہاں ایک بار پھر والدین سے ہی سوال ہے کہ وہ بھی تو اسی ماحول میں رہتے ہیں جس میں ایک بچہ رہتا ہے، تو وہ کیوں اس ذہانت کے معیار تک نہیں پہنچتے؟

اگر آپ بچوں کے اچھے سکولوں کی پڑھائی کے بہانے کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں تو یہ بھی بتائیے کہ پچھلے دس پندرہ سال میں یعنی اپنا سکول کالج چھوڑنے کے بعد آپ نے کون سی چار کتابیں پڑھنے کی زحمت کی ہے؟ جواب میں ایک بڑا سا صفر ہمارے سامنے آتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں موجود والدین کی ستانوے فیصد تعداد چاہیے وہ میٹرک پاس ہو یا ایم اے، اپنی پڑھائی ختم کرنے کے بعد کسی کتاب کو خریدنا اور پڑھنا ایک جرم اور وقت کو ضائع کرنے سمجھتے ہیں۔

اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور پائلٹ بننے کے خواب دکھانے والے والدین انہی بچوں کے سامنے پینڈو پڈیکشن بن کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ خود اپنی قابلیت اور صلاحیت بڑھانے میں انہیں شرم محسوس ہوتی ہے اور مستقبل میں پڑھے لکھے بچوں کو انہیں متعارف کروانے میں بھی ویسی ہی شرم محسوس ہوتی ہے۔ اپنے فارغ وقت میں اہل خاندان اور گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑائیاں کرنے والے والدین تربیت کی الف ب سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں اور ان کے خیالات میں بچوں کے کھانے پینے رہنے سونے اور پہننے کی ضروریات پوری کر دینا ہی تربیت اور پرورش کے لیے کافی ہے جس سے کوئی بھی بچہ ایک فرمانبردار بیٹا یا بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شہری بھی بن جائے گا اور شادی کے بعد اپنے رشتوں کو بھی احسن طریقے سے نبھا سکے گا۔

اس ساری صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ماں باپ جو زمانے کے سرد و گرم سے واقفیت کے ڈائیلاگ تو ضرور مارتے ہیں، وقت کی نبض پکڑنے میں ناکام ہیں۔ بجائے اس بات کے کہ بچہ اپنے ماں باپ کو آئیڈیل اور منزل بناتے ہوئے ان کی ذہانت اور دوسری عادات کو اپنانے کا ہدف رکھے یہاں تو والدین کے لیے بچوں سے بات کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ والدین بچوں سے گبھراتے اور چھپتے پھرتے ہیں کہ وہ بچوں سے کیا بات کریں اور نجانے بچے ان سے کیا بات پوچھ لیں گے؟

جنریشن گیپ کی بس اتنی سی کہانی ہے جس کے دو ہی ممکنہ حل ہیں۔ یاں تو بچوں کو غبی، کاہل اور جاہل رکھتے ہوئے ایک مخصوص ماحول تک محدود کر دیا جائے یا پھر والدین کو اپنی صلاحیت اور قابلیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھانے پر توجہ دینی ہو گی۔ اب یہ گیند والدین کے کورٹ میں ہے کہ وہ جنریشن گیپ کو اپنی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ کم کرتے ہیں یاں پھر مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments