میں ادبی مختارا ہوں


مختارا بالاخر منظر عام پر آ گیا ہے اور اپنے مربی کے ساتھ ایک سرسبز لان میں خوش باش دیکھا گیا ہے اور اس نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اس نے دی گئی مغلظات کو محبت سمجھا اور تبرک جان کر حرز جان بنایا ہے اور یہ کہ اس نے محبت بھری دشنام کو سینے سے لگایا ہے اور یہ بھی کہ اکیس دن کے آئسولیشن کے بعد وہ کافی مطمئن ہے اور حافظ آباد میں بیوی بچوں کے ساتھ محفوظ رہا ہے۔ اس کی باتیں سن کر تسلی ہوئی کہ ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں

سو میں نے بھی منظر عام پر آنے کا سوچا۔ میں ایک ادبی مختارا ہوں اور میں پہلا ادبی مختارا ہوں جو اپنے مختارا ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ یوں تو ہر جگہ پر مختارے ہیں البتہ وہ اعتراف نہیں کر رہے (اور گورنمنٹ بھی نہیں بتا رہی) مگر فائدے وہ مختارے ہونے کے حاصل کر رہے ہیں۔ محبت بھری گالیوں میں مائنڈ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور جزبز ہونے کی بھی چنداں ضرورت نہیں کہ میری تربیت ہی بطور مختارا ہوئی ہے۔ میری خوش بختی کہ ادبی کیریر کے شروع میں ہی مجھے استاد لگڑ بھگڑ موڑوی کی صحبت میسر آ گئی۔

جب میں ان سے موڑوی کے بارے میں استفسار کیا تو استاد نے کہا کہ اس نے جدید غزل کو اتنے موڑ دیے ہیں کہ مناسب سمجھا کہ موڑ کو ہی اپنے نام کا حصہ بنا لیا جائے۔ استاد نے پہلے دن ہی ایک گر کی بات بتا دی تھی کہ اگر ادب میں صدیوں تک زندہ رہنے کی طلب اور تڑپ ہے، اور چاہتے ہو کہ تمہارا نام فیض، منیر نیازی اور ظفر اقبال کے ساتھ لیا جائے تو خوشدلی سے مختارا بننا قبول کرنا ہو گا۔

استاد زمان لگھڑ بھگڑ موڑوی نے ادبی دنیا میں کامیابی کے بڑے بڑے گر بتائے جس میں اول یہ تھا کہ ہمیشہ بڑوں کی ٹانگ کھینچنی ہے اور کوئی منع بھی کرے تو باز نہیں آنا بلکہ بڑوں کے سامنے سینہ تان کر چلنا ہے۔ دوئم یہ کہ نسبتاً غیر معروف شعرا کے کلام پر ہاتھ مارنا ہے اور اسی کلام کو بالکل نئے انداز میں پیش کرنا ہے۔ سوئم کسی بڑے مشہور شاعر کی کسی مشہور غزل کے بارے میں خوب گرد اڑانی ہے اور کہنا ہے کہ یہ مختارے کا کلام چوری کیا گیا ہے اور احساس ِجرم کو نزدیک بھی نہیں آنے دینا اور نہ پشیمان ہونا ہے بلکہ ایک آدھ اور غزل پر ہاتھ صاف کر لینا ہے۔

پھر استاد نے ادبی رسائل کے بارے میں گل افشانی کی اور بتایا ادبی جریدہ وہ گولہ بارود ہے جو کسی کو بھی بھسم کر سکتا ہے سو اس گولے بارود کی زد میں نہ آنا اور مدیران سے بنا کے رکھنی ہے۔ ساتھ ساتھ ہم نے از خود استاد عروضی سے بھی دوستی گانٹھ لی جس پے لگڑ بھگڑ موڑوی نے ہمیں بہت داد دی اور ہمارا ماتھا چوم لیا۔

میں نے استاد عروضی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا اور ایک عشرہ تک تہ کیے رکھا آخر کار استاد نے خود ہی تنگ آ کر تہ کیا زانو کھول دیا مگر میں نے برا نہیں مانا۔

کہ ادب پہلاقرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔

دس سال تک میں نے یہ سبقِ عروض لیا۔ استاد نے ہمیں مختلف بحروں کے نام یاد کرنا شروع کیے مگر ان بحروں کے نام ہی بہت مشکل تھے جیسے

بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف /فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
ایک بحر تھی
بحر ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف اس میں بھی آٹھ فعلن آتے تھے۔ ایک اور بحر بہت ہی مشکل تھی
رجز مثمن مطوی مخبون اور اس کا وزن تھا مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن
مگر میں نے آسان بحریں چن لیں اور ان میں خوب اشعار کہے
جیسے رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اور
اک تھا گیٹو گرے اک تھا گیٹو گرے

استاد عروضی نے ہمیں ان بحروں کو یاد کرنے کا حکم دیا۔ یہ بحریں تو ہم یاد نہ کر سکے مگر ہم پر عروضیے کا ٹھپہ لگ گیا تو لوگوں نے ہم سے دور دور رہنا شروع کیا۔ ہم عروضی کے مختارے کیا بنے کوئی ہمیں گھاس ڈالنے کو تیار نہ تھا مطلب کہ ہمیں مشاعروں میں دعوت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ دعوت کی تو خیر کوئی بات نہیں تھی ہم بن بلائے بھی چلے جاتے تھے کیونکہ عروضی استاد الم غلم نے نصیحت کی ہوئی تھی بیٹا مختارے جان چلی جائے پروا نہیں مشاعرہ نہیں چھوڑنا۔ ہم نے آج تک وہ نصیحت پلے باندھی ہوئی ہے کوئی بلائے نہ بلائے ہم مشاعرہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب گگو منڈی میں مشاعرہ ہوا تو ہم عازم سفر ہوئے رستے میں بس خراب ہو گئی مگر ادب کی لگن تھی کہ ہم چنگچی پر بیٹھ کر وہاں پہنچ گئے۔

ہمارے ادبی اختلافات کی ایک تاریخ ہے جس پر تنقید نگاروں نے ابھی پوری توجہ نہیں دی۔ یہ اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب استادِ زماں لگڑ بھگڑ ٹھینگ موڑوی کو مخالفوں نے چیچو کی ملیاں میں حسب وعدہ مہمان اعزاز بنانے کا کہہ کر مکر گئے اور کہا کہ اگلے مشاعرے میں جو جھاوریاں میں ہو گا اس میں کسر نکال دیں گے وہاں بھی استاد کو سٹیج پر نہیں بٹھایا گیا تھا۔

چھری اچھروی اور ملیامیٹ تنقیدی سے ہماری پہلے گاڑھی چھنتی تھی کونکہ ہم تینوں استاد بھائی تھے۔ استاد ہمیں شاعری کے گر سکھاتے تھے اور ملیامیٹ تنقیدی کو تنقید کے دھوبی پٹڑے لگانے کا داؤ سکھاتے تھے۔ ملیا میٹ تنقیدی سے ہمارے اختلافات کو دنیا جانتی ہے اور اب بھی ادبی دنیا میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ آج مختارا منظر عام پر آ گیا ہے اور وہ راز افشا کرنے جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے راستے جدا ہوئے۔ ماہنامہ ”میل کچیل“ میں اس کا ایک مضمون بعنوان ”کلچے کی ادبی اہمیت، مباحث تاریخی تناظر میں“ شائع ہوا۔

اس مضمون میں کلچے کی ادبی تاریخ میں تنقیدی نے ڈنڈی ماری اور کہا کہ شعرا کلچہ پانی کے ساتھ بھی کھاتے رہے ہیں ڈیڑھ پاؤ دہی کلچے کے ساتھ ہر گز ضروری نہیں۔ استاد لگڑ بھگڑ نے ہمیں ارشاد کیا مختارے اللہ کا نام لے کر پڑ جاؤ ہم نے جواباً اگلے شمارے میں ”شربت روح افزا، جدید تھیوری اور اردو تنقید“ لکھ کر حساب برابر کر دیا اور ساتھ ہی اس کے خاندانی احوال لکھ کر اس کے وہ پرخچے اڑائے کہ توبہ ہی بھلی۔ اس تاریخ ساز اور رجحان ساز پرچے میں خطوط کا سیکشن میرے ظالم خط سے شروع ہوتا تھا کونکہ مدیر میل کچیل کی ہم اکثر تواضع کرتے تھے۔ ہمارے کہنے پر ملیامیٹ تنقیدی کے مضامین سے کئی ضروری جملے حذف کر دیے جاتے تھے اور بسا اوقات فہرست سے اس کا نام بھی دانستاً نہیں لکھا جاتا تھا اور اگلے شمارے میں معذرت شائع کروا دی جاتی تھی۔

آخر میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ آج میں جو کچھ ہوں اور ادبی دنیا میں میرا جو نام ہے اور ساتھ ساتھ جو کتے کھانی ہو رہی ہے یہ سب استاد لگڑ بھگڑ کی طفیل ہے اور ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے میں نے یہ مقام حاصل کرکے کبھی غرور نہیں کیا یہ سب میرے استاد محترم کی تربیت اور محبت کا ثمر ہے وگرنہ من آنم کہ من دانم!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments