سیمنٹ کی بڑھتی قیمتیں: پس منظر اور زمینی حقائق


سیمنٹ کی بڑھتی قیمت کے پس منظر کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وبا سے پھیلنے والی معاشی بدحالی کو کم کرنے کے لیے حکومت نے تعمیرات کے شعبے کو صنعت کو درجہ دینے کا فیصلہ کیا اور اہم مراعات کے اعلان کے ساتھ کنسٹرکشن ڈویلپمنٹ بورڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ یہاں یہ وضاحت نہایت ضروری ہے کہ شعبہ تعمیرات کی اس حکومتی درجہ بندی میں سیمنٹ اور اسٹیل کے علاوہ تقریباً تمام شعبے شامل ہیں، اور جومراعات دی گئی ہیں وہ سیمنٹ اور اسٹیل کے علاوہ دیگر شعبوں کو دی گئی ہے۔

متعارف کروائی گئی مراعات کے تحت تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو آمدن کے ذرائع نہیں بتانا پڑیں گے۔ بلڈرز اینڈ ڈویلپرزاپنا غیر ظاہر شدہ سرمایہ 31 دسمبر 2020 تک جمع کروانے کے پابند ہوں گے اور اس سرمایے کو کراس چیک کے ذریعے تعمیراتی سرگرمیوں میں 30 ستمبر 2022ء تک استعمال کرسکیں گے۔ جو لوگ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں سرمایہ کاری کریں گے ان کو ٹیکس میں 90 فیصد رعایت ملے گی اور صرف 10 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔

اس کے ساتھ ہی تعمیراتی شعبے کو سیمنٹ اور سریے کے علاوہ دیگر سامان پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہوگی۔ گھروں کی فروخت پر کیپیٹل گین ٹیکس بھی عائد نہیں ہوگا۔ اس کی بجائے فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے گا جو فی مربع فٹ یا فی مربع گز ہوگا۔ صوبوں کی مشاورت سے دو فیصد سیلز ٹیکس بھی کم کر دیا جائے گا جس کے لئے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ نے رضامندی ظاہر کردی ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ ان اقدامات سے تعمیراتی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے ۔

دوسرا پہلو اور رُخ یہ ہے کہ 2014 ء میں سیمنٹ کی فی بوری قیمت 535 روپے تھی اور آج تقریباً چھ سال کے بعد بھی سیمنٹ کی قیمت 480 روپے فی بوری ہے، اس چھ سالہ عرصہ میں شرح سود اور شرح افراط زر میں بے پناہ اضافے کے بعد بھی واحد سیمنٹ ہے جس کی قیمت کا گراف ہبوطی رُخ پر ہے۔ تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والی مراعات سے ملک کی معیشت اور روزگار میں جس تیزی کی امید کی جارہی ہے اس میں سیمنٹ اور اسٹیل ایک مددگار (Toll) کے طور پر تو استعمال ہوں گے مگر ان مراعات سے براہ راست کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ رواں سال کے تیسری سہ ماہی میں ہرسیمنٹ فیکٹری کے گوشوارے نقصان بتا رہے ہیں۔

متواتر نقصان کے سبب اور تعمیرات کے شعبے پر لاک ڈاؤن کے خاتمے اور متوقع طلب کے پیشِ نظر سیمنٹ سیکٹر نے سیمنٹ کی فی بوری قیمت میں فوری تقریباً َپچاس روپے فی بوری اضافہ کردیا۔ جس سے کرونا وائرس کی معاشی تباہ کاریوں کی شکار سیمنٹ مارکیٹ میں مندی کی کیفیت مزید گہری ہوگئی۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چایئے کہ لاک ڈاؤن نے صرف کراچی، لاہور راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں سیمنٹ مارکیٹ کو متاثر کیا ہے جب کہ ملک کے تمام چھوٹے شہروں میں تعمیراتی سرگرمیاں زور و شور سے جاری رہیں اور بعض سیمنٹ فیکٹریوں نے اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق سیمنٹ فروخت کیا۔

سیمنٹ کی قیمت میں اضافے پر سوشل میڈیا میں اُس سیمنٹ فیکٹری کے خلاف زیادہ زور شور سے مہم چل رہی ہے جس کا سلوگن ”بہترین راستہ“ ہے۔ اس کمپنی نے وزیراعظم کے کرونا فنڈ میں اپنی قومی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ایک خطیر رقم عطیہ کی تھی۔ اتفاق یہ ہوا کہ اس کے چند روز بعد ہی سیمنٹ کی قیمت میں اضافہ ہوگیا اور نیک نیتی سے دیا جانے والا عطیہ عوام کی نظروں میں رشوت کی زمرے میں شمار کیا جانے لگا۔ راقم کا ذاتی خیال ہے کہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق نقصان کے باوجود، سیمنٹ کمپنیوں کو قومی معیشت میں جاری جمود کی اس کیفیت میں قیمتوں میں فی الحال اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اخباری خبروں کے مطابق حکومت نے سیمنٹ کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لے لیا ہے اور قیمت بڑھانے والوں کے خلاف کارروائی کا اراد ہ بھی رکھتی ہے۔ یعنی بقول منیر نیازی : کُج شہر دے لوک وہ ظالم سَن، کُج سانوں مرن دا شوق وی سی، کا معاملہ ہوا ہے۔ سیمنٹ فیکٹریوں اور دیگر حلقوں کا اگر یہ خیال ہے کہ حکومت میں بہت غیر معمولی صلاحیتوں کے لوگ براجمان ہیں اور انھیں زمینی حقائق کا ادراک ہے تو یہ خیال سرے سے ہی غلط ہے۔ ناعاقبت اندیشی کی تازہ مثال یہ ہے کہ چند روز قبل وزیراعظم ہاؤس میں ٹیلی تھون ہوئی جس میں صحافیوں اور اینکروں نے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں سے چندے کی اپیل کے لیے وزیر اعظم کی صدا میں صدا ملائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صرف 55 کروڑ روپے کے چندے کے وعدے ملے اور تمام چینلزکا ایک ارب کا کمرشل ٹائم خرچ ہوا۔

ایک کالم نگار کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جتنا چندہ ٹیلی تھون سے جمع ہوا ہے اس سے دوگنا ٹول ٹیکس ایک دن میں پورے میں ملک اکٹھا ہوتا ہے۔ سیمنٹ سیکٹر کو درپیش اس تمام صورتحال کی ذمہ داری ایک حد تک سیمنٹ فیکٹریوں اور ان کی انجمن آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کو بھی جاتی ہے جو اپنے مسائل کو حکومتی حلقوں اور اداروں کے علم میں لانے سے قاصر ہیں۔ صرف دو بنیادی مسائل ایسے ہیں اگر جنھیں دلائل اور زمینی حقائق کے ساتھ حکومت اداروں کے علم میں لایا اور سمجھایا جائے تو حل ہونے کی صورت میں سیمنٹ سیکٹر کو ایک بڑی ریلیف فوری طور پر مل سکتی ہے۔

ایک یہ کہ زمینی راستے سے سیمنٹ کی برآمد کے دو ممالک میں پاکستانی سیمنٹ کی بہت زیادہ طلب ہے۔ ایک بھارت اور دوسرا افغانستان۔ بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں ایک عرصے سے بند ہیں، دوسرا ملک افغانستان ہے۔ ان دونوں ممالک میں سیمنٹ کی برآمد مقامی فروخت کا تقریباً 15 سے 20 فیصد ہے۔ بھارت کے ساتھ معطل تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سفارتی اور خارجی ہے، جب کہ افغانستان کابارڈر کرونا کی وبا کی وجہ سے بند ہے۔ بھارت میں سیمنٹ کی برآمد واہگہ بارڈر کے ذریعے اور افغانستان میں چمن، طور خم اور غلام خان بارڈر کے ذریعے ہوتی ہے۔

افغانستان میں پاکستانی سیمنٹ کی برآمد نہ ہونے سے افغانستان میں ایرانی سیمنٹ نے قدم جمانا شروع کردیے ہیں جس کی قیمت اور کوالٹی دونوں پاکستانی سیمنٹ سے کم ہیں۔ اگر آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو یہ باآور کرا دیا جاتا کہ سیمنٹ کی تجارت شروع کرنے سے سیمنٹ کی زائد مقدار ان ممالک میں کھپ سکتی ہے جس سے زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا، تو سیمنٹ فیکٹریوں کو کا فی حد تک سہولت مل سکتی ہے۔

دوسرا یہ کہ بجائے سیمنٹ کی قیمت میں اضافہ کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے اگر حکومت سے سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں رعایت لے لی جائے جو بلترتیب 80 اور 100 روپے فی بوری اس وقت سرکار وصول کررہی ہے، تو اس کے بھی مثبت اثرات ہوں گے اور تعمیرات کے شعبے میں مزید تیزی کی امید باندھی جاسکتی ہے۔

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافے کے لئے موافق نہیں ہے۔ صرف ٹیکس میں حکومتی رعایت اور افغانستان اور دیگر ممالک میں بذریعہ سڑک سیمنٹ برآمدکا ازسرنو آغازسے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments