اگر مولانا طارق جمیل گلوکار ہوتے


محمد حنیف کے بی بی سی پر شائع ہونے والے ایک کالم کا عنوان ”بڑے ہو کر کیا بنو گے، مولانا طارق جمیل“ کالم کے مطابق ”گزشتہ سال دینی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ذہین بچے سے پوچھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ اس نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا، مولانا طارق جمیل۔“

اگر یہی سوال مولانا طارق جمیل کے کسی بچے سے پوچھا جاتا تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا جواب فاروق مودودی صاحب کی طرح مختلف ہوتا یا نہیں لیکن اس عمر میں اگر یہی سوال خود طارق جمیل صاحب سے کیا جاتا تو ان کا جواب یقیناً مختلف ہی ہوتا کہ اس عمر میں انھیں مولانا بننے کی خواہش ہر گز نہیں تھی۔

ان کی ابتدائی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ امیتابھ بچن، محمد رفیع، وحید مراد یا مہدی حسن میں سے کسی ایک کا نام لیتے۔ میں نے کسی کھلاڑی کا نام اس لیے نہیں لیا کہ سنا ہے کرکٹ سے دلچسپی انھیں تبلیغی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہوئی ہے جب کہ موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ سے دلچسپی انھیں بچپن سے تھی۔ جس کا اعتراف وہ اپنے ایک انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں۔

ہم نے ان کی کچھ تقریریں سن رکھی ہیں جن میں وہ جنت کا نقشہ اور حوروں کاسراپا اتنی خوبصورتی سے کھینچتے ہیں کہ یہ یقین کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ ایک سراسر تخلیقی آدمی ہیں اورخدا نے انھیں زرخیز تخیل سے نواز رکھا ہے۔ اس لیے وہ جس شعبے میں بھی جاتے ہمیں یقین ہے کہ کامیابی ان کے قدم چومتی اور متعلقہ شعبے کے لوگ انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا بن کر انھوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔

اگر وہ دوسرا راستہ چنتے اورکوئی اہم شاعر، گلوکار، فنکار یا کچھ اور بن جاتے توان کی آخرت تو بگڑتی ہی اس دنیا میں بھی ان کا انجام کچھ اچھا نہ ہوتا۔ مثلاً اگر وہ لوک فنکار بن جاتے تو آخری عمر میں الن فقیر کی طرح انھیں ایک بھینس پالنا پڑتی جس کے لیے وہ روڈ پر کھڑے ہوکر چارے سے لدے گزرنے والے ٹرکوں کے ڈرائیوروں سے چارہ مانگ رہے ہوتے۔ اگر کلاسیکی گلوکار بنتے تو ان کا انجام مہدی حسن سے مختلف نہ ہوتا۔ اور اگر شاعر ہوتے تو بھی ان کا انجام ”دل دل پاکستان“ کے خالق نثار ناسک یا ”ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا“ جیسے نظم لکھنے والے حبیب جالب جیسا ہی ہوتا۔

جبکہ ان کے مداحین کا دائرہ لالی ووڈ کے اداکاروں سے لے کر بالی ووڈ کے فنکاروں تک پھیلا ہوا ہے جن میں عامر خان اور وینا ملک جیسے چوٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ چوٹی سے یاد آیا اگر فاروق لغاری اس وقت زندہ ہوتے تو وہ بھی ان کے مداحوں میں شامل ہوتے کہ اس وقت کوئی بھی ایسا شعبے نہیں ہے جس کے ”چوٹی“ کے لوگ ان کے مداح نہ ہوں۔ سو مولانا بن کر نہ صرف ان کی عاقبت سنور ی بلکہ دنیا اس سے کہیں زیادہ سنور گئی اور کامیاب آدمی وہی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ٹھہرے۔

شاعر مشرق نے کہا تھا:
گو لفظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

مولانا طارق جمیل کی ذات گرامی میں نہ صرف دنیا و آخرت ایک ہو گئے، دونوں اذانیں یکجا ہو گئی ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہاں لفظ و معانی میں گہرا تفاوت پایا جاتا ہے۔ اتنا گہرا کہ بعض ”کم ظرف“ اسے مولانا کی دوغلی پالیسی قرار دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments