کچھ جرم و سزا کے بارے میں


جرم کی اگر کوئی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ، جرم سماجی معیارات سے انحراف سے جنم لیتا ہے۔ یہ انحراف منفی رخ پر ہوتا ہے اور اِس انحرافی رویے سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ جرم ہمیشہ رویے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر صرف سوچ ہو تو جرم نہیں۔ جب ایک انحرافی سوچ عمل میں ڈھلتی ہے تو جرم وجود میں آتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ لفظ ’جرم‘ اور لفظ ’گناہ‘ کے معنی اورمعنی میں بھی بڑا فرق ہے۔

گناہ ایک مذہbی اصطلاح ہے جبکہ جرم سماجی اصطلاح ہے۔ مثلاً مسلم عقائد کے مطابق ایک سے زائد شادیاں گناہ نہیں لیکن ایسا کرنا بعض ممالک میں جرم ہے۔ اِسی طرح بہت سے اعمال گناہ ہیں پر جرم نہیں، جیساکہ غیبت کرنا، حسد کرناوغیرہ۔ جرم اور گناہ دو الگ چیزیں ہیں۔ بہت سے جرائم گناہ بھی ہو سکتے ہیں، پر یہ ضروری نہیں کہ ہر گناہ جرم بھی ہو یا ہر جرم گناہ بھی ہو۔

جرم کے ساتھ تصورِ سزا بھی لازم و ملزوم ہے۔ سزائیں بھی دو طرح کی ہیں، ایک وہ جو کہ کسی الہامی کتاب سے ماخوذ ہیں اور دوسری وہ جو کہ انسانوں نے وضع کر لی ہیں۔ ہمارے ملک میں 90 فیصد قوانین انسانوں کے وضع کردہ ہیں۔ سزا کا مقصد لوگوں کو جرم سے روکنا اور مقتدر طبقے کی جلالت کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ سزائیں ہونے کے باوجود بھی جرائم کیوں ہوتے رہتے ہیں اور انسان پھر بھی کیوں انحرافی رویے اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ اِن سوالات کے کچھ جوابات ذیل کے معروضات میں درج ہیں۔ ترتیب کسی ترجیحی بنیاد پر نہیں ہے۔

٭ انسان آسان لذت حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ مروجہ سماجی راستہ طویل اور محنت طلب ہوتا ہے۔ بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص 500 روپے یومیہ پر مزدوری کرتا ہے، اب اگر وہ سڑکوں پر موبائل چھیننا شروع کرتا ہے تو وہ اوسطاً 3000 روپے یومیہ کمانے لگے گا اور محنت بھی کم درکار ہوگی۔ اگر وہ اتنے پیسے کسی مروجہ جائز راستے سے حاصل کرنا چاہے ہے تو اُسمیں بے حد محنت اور کاوش درکار ہو گی اور اپنی خواہشات کو دبانا اور مارنا ہوگا۔

٭ انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا، یعنی وہ اشتعال یا جنسی خواہشات پر کوئی قابو ہی نہیں رکھتا اور اُسکی خواہشات بے لگام رہتی ہیں۔

٭ انسان اپنے مسلکی، مذہبی، لسانی اور گروہی تعصبات کو ملکی قوانین سے بالاتر سمجھتا ہے اور اُنکے مخالف جو ہو اُسکو نقصان پہنچانا اور ختم کر دینا وہ اپنے تئیں صحیح سمجھتا ہے۔

٭ قوانین کا اطلاق سب پر یکساں نہیں ہوتا۔ ہر جرم کرنے والے کو سزا نہیں ملتی۔ نتیجتاً جرم کرنے والا شخص اِس بات سے صریحاً غیر مطلع ہوتا ہے کہ جرم کرنے پراُسکو سزا مل سکتی ہے اور اگر سب کو چھوڑ کر اُسے سزا ملے تو وہ خود کو مظلوم گردانتا ہے۔

٭ بعض جرائم کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ گروہی طور پر کیے جاتے ہیں۔ اِس صورت میں آپ کی اپنی اخلاقیات گروہی معیارات تلے دب جاتی ہیں۔ آپ شاید اُن اقدامات کو ذاتی حیثیت میں برُا جانتے ہوں، پر آپ اپنے گروہ کے اثرات میں اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بڑی اعلیٰ گفتگو سماجی نفسیات کی کتب میں موجود ہے۔

٭ قانون نافذ کرنے والے ادارے مظلوموں کو بھی قید خانوں میں ٹھونس دیتے ہیں۔ عدالتی نظام اگر اُنکو باعزت بری بھی کر دے تو بھی اِسمیں بہت وقت لگتا ہے اور باہر نکلنے پر سماج اُن افراد کو قبول نہیں کرتا۔ اُنکی سنگت ایسے ہی لوگوں میں ہو جاتی ہے جو کہ خود بھی اُنکی طرح جیل میں رہ چکے ہوں۔ نتیجتاً وہ بھی جرائم کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔

٭ ملک میں تعلیم کے ذرائع محدود ہیں اور روزگار بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں اِس کمی کو پورا کر تی رہی ہیں۔ اِن جماعتوں کوکارکن چاہئیں جو کہ اُنکی دھاک بٹھا سکیں اور بدلے میں وہ اُن کارکنوں کو سیاسی چھتری فراہم کرتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کا کارکن بننے کے لیے صرف اُس گروہ کا ہونا (جیسے مذہب، زبان، فرقہ) ہی کافی ہوتا ہے اور پھر جرائم کرنے کے بعد بھی پکڑا جانا یا سزا ہونا مشکل ہو جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی حد تک یا مکمل طور پر بے بس ہو جاتے ہیں۔

٭یہ معاشرہ اپنی روحانی زندگی پر یقین کھوتا جا رہا ہے۔ سماج میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جو کہ مذہب اور اخلاقیات کو کسی رول ماڈل میں ڈھلا نہیں دیکھتے۔ نتیجتاً وہ خود مجرد مذہبی و اخلاقی تصورات کو اپنا نہیں پاتے۔ اس لیے مذہب و اخلاقیات اُنکے لیے محض ایک کتابی شے بن کے رہ جاتے ہیں۔

٭ انسانوں کی جمیع اکثریت حق اور باطل کے تصورات میں بالکل کنفیوز ڈہے۔ نہ سماج کے مقتدر طبقات خود کو حق ثابت کر پاتے ہیں نہ ہی کمزور طبقات۔ سماج میں موجود ہر حق کے دعویدار میں قبیح حرکات مل جاتی ہیں۔ اِس سے یہ تاثر پروان چڑھتا ہے کہ سب ہی غلط ہیں اور کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ نتیجتاً انسان برائی سے رکنے کی ہر شعوری کوشش ترک کر دیتا ہے۔

٭ ریاستی ادارے ملزمان کے ساتھ بہیمانہ تشدد اور انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ رویے حق کی تعریف کے بالکل الٹ ہوتے ہیں۔ اِس سے ملزمان کے دل میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ ایسا رویہ اختیار کرنے والے ’حق والے‘ ہو ہی نہیں سکتے۔ نتیجتاً اُنمیں احساس جرم کی جگہ فخر جنم لیتا ہے۔ کیونکہ ایک جانب تشدد اور ظلم ے قانون نافذ کرنے والوں کی اخلاقی حیثیت کو ختم ہوجاتی ہے۔ دوئم تشدد کے نتیجے میں ملزم میں انتقام کی کیفیت جنم لیتی ہے جو کہ بڑا حوصلہ دیتی ہے اور تکلیف برداشت کرنے سے انسان ذہنی طور پر مضبوط اور اپنے رویے میں اور شدید ہو جاتا ہے۔

ایک بات جو کہ اوپر بیان شدہ معروضات کے علاوہ میرے ذہن میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان چاہے اُس سے کیسا قبیح فعل ہی کیوں نہ ہوا ہو اپنے اندر کہیں اُسکی اخلاقی تاویل دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ یہ ایک عمومی روش ہے۔ اِس بات سے دو طرح کے افراد مستثنیٰ ہیں، ایک وہ جو کہ بالکل غریب ہیں۔ شاید غریب لفظ کی جگہ ان کے لئے بھکاری کا لفظ زیادہ موضوں ہے۔ یہ طبقہ جرم بالکل لمحاتی جذبے کے زیر اثر کرتا گزرتا ہے اور کیونکہ اِس طبقے کا پالا کبھی اخلاقی تصورات سے پڑتا ہی نہیں ہے اس لیے یہ طبقہ جرم کرنے کے بعد بھی کسی بھی قسم کے احساس جرم سے صریحاً معذور ہوتا ہے۔ اِنکے خیالات اور خواب میں زبان کا استعمال بڑا کم ہوتا ہے اور اِنکی لسانی اہلیت بے حد محدود ہوتی ہے۔

دوسرا طبقہ جو کہ اپنے جرائم کی تاویل نہیں دیتا وہ ہیں نشے کے عادی افراد۔ نشہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ایک جانب اُس کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، دوسری جانب یہ استعمال کرنے والے کو اِس قابل نہیں چھوڑتا کہ وہ کوئی کام کر سکے۔ نتیجتاً نشئی صرف جرائم ہی کرسکتا ہے۔

اس مضمون کا اختتام میں اس رائے پر کروں گا کہ تعزیرات کبھی بھی جرائم کا خاتمہ نہیں کر سکتیں۔ جرم کبھی بیرونی طاقت سے ختم نہیں ہوتا۔ کوئی بھی انحرافی رویہ محض ڈر سے نہیں رکتا۔ اُس کے لئے ایک وسیع البنیاد اندرونی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ کسی ایسے معاشرے میں ممکن ہی نہیں جہاں اخلاقیات صرف کتابوں میں ملتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments