فردوس عاشق اعوان کو بیوروکریسی کے اشارے پر ہٹایا گیا: منصور آفاق


پاکستان تحریک انصاف سے قریبی مراسم کی شہرت رکھنے والے کالم نویس منصور آفاق نے اپنے کالم میں فردوس عاشق اعوان کی برطرفی پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں بدعنوانی پر نہیں بلکہ بیوروکریسی سے اختلافات پر ہٹایا گیا ہے۔

منصور آفاق نے لکھا ہے کہ ” مجھے فردوس عاشق اعوان کو ہتائے جانے کا پہلے سے اندازہ تھا۔ میرے لئے اصل خبر یہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان پر کرپشن کے الزام عائد کئے گئے اور جو الزامات لگائے گئے اُنہیں پڑھ کر مجھے ہنسی آ گئی۔

پہلا الزام یہ تھا کہ انہوں نے حکومتی اشتہاری بجٹ سے دس فیصد کمیشن لینے کی ناکام کوشش کی۔ کیا کہنے! اشتہارات دینا اطلاعات کے افسر کا کام ہے۔ زیادہ تر اشتہارات بڑے بڑے میڈیا گروپ کے اخبارات اور چینلز کے لئے ہوتے ہیں۔ وہاں سے کمیشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ باقی جو چھوٹے موٹے ڈمی اخبارات ہیں اُن کے اشتہارات کا ریٹ اتنا کم ہے کہ یہ کوئی ایسی رقم نہیں بنتی جو فردوس عاشق اعوان جیساخوشحال پس منظر رکھنے والی خاتون کو کرپشن پر آمادہ کر سکے۔ اگر کہا جاتا کہ اس نے دس بیس ارب روپے کی کرپشن کی کوشش کی ہے تو آدمی سوچتا کہ ممکن ہے کسی کمزور لمحے میں کوئی فیصلہ ہو گیا ہو مگر یہ چند لاکھ والی کرپشن کا الزام میرے حلق سے نہیں اُترتا۔

دوسرا الزام اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہے کہ اس نے گھریلو استعمال کے لئے تین سرکاری گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس کے گھر میں کون تھا جو یہ گاڑیاں استعمال کرتا تھا۔ انہیں جاننے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کی کتنی مختصر سی فیملی ہے۔ تین گاڑیوں میں یقیناً ایک خود استعمال کرتی ہوں گی ایک ان کا پی ایس استعمال کرتا ہوگا، تیسری پی آر او کے پاس ہوتی ہو گی۔ وہ مشیر تھیں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی۔ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ یہ کہنا کہ بحیثیت معاونِ خصوصی انہیں تین گاڑیاں رکھنے کی اجازت نہیں تھی، یہ الزام نہیں بلکہ مذاق ہے۔

اگلا الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے سرکاری خرچ پر غیرقانونی طور پر 11ملازم اپنے گھریلو استعمال کیلئے رکھے ہوئے تھے۔ وہ منسٹر کانولی میں مقیم تھیں۔ وہاں کے بنگلے اتنے بڑے نہیں کہ ایک گھر میں گیارہ ملازم سما سکیں۔ پھر مالی اور خاکروب تو منسٹر کالونی کے اپنے ہیں۔ وہ کیسے پاکستان ٹیلی وژن کے بجٹ سے لئے گئے۔ پھر پی ٹی وی کے ساتھ تو ڈائریکٹ ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ یہ کہنا بھی عجیب ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پی ٹی وی میں اپنے اہل و عیال کی ناجائز بھرتیاں کیں۔ الزام لگانے والوں سے درخواست ہے کہ وہ یہ بھی بتادیں کہ پی ٹی وی میں محترمہ نے اپنے کون سے رشتہ دار ملازم کرائے ہیں”۔

منصور آفاق مزید لکھتے ہیں کہ “اگر یہ الزامات بھونڈے، غیرحقیقی ہیں تو پھر محترمہ کو ہٹایا کیوں گیا۔ کام کے معاملے میں تو انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ان کے آنے کے بعد میڈیا سے حکومتی مراسم میں بہتری آئی تھی۔ میرے نزدیک انہیں ہٹانے کا بنیادی سبب بیوروکریسی ہے جس کے لئے فردوس عاشق اعوان کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

وہ دو مرتبہ پہلے وزیر رہ چکی تھیں، بیورو کریسی کی ایک ایک واردات سے واقف تھیں۔ ان کے سامنے کوئی بیوروکریٹ اپنی مرضی نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام جب وہ، میں اور ان کی وزارت کے ایک بڑے بیوروکریٹ انہی کے گھر گپ شپ کررہے تھے تو میں نے وزیراعظم کے ایک قریبی افسر کے بارے میں کچھ باتیں کیں اور کہا کہ میں یہ ساری باتیں کالم میں لکھنا چاہ رہا ہوں۔

اُس بیوروکریٹ نے فوری طور پر محترمہ سے کہا، ’’اِنہیں روکیں، یہ آپ کیلئے خطرناک ہوگا‘‘ تو انہوں نے کہا: میرے لئے کیوں، میں تھوڑی لکھوا رہی ہوں۔ منصور آفاق کو پی ٹی آئی کے حق میں لکھتے ہوئے دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ دوسرا، یہ میانوالی کے ہیں، وہاں عمران خان کے ہمسائے ہیں، یہ جانیں اور خان جانیں۔

اس کالم کے شائع ہونے والے دن جب اُسی افسر سے اس کے آفس میں میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کہا ’’میرا لیڈر وزیراعظم ہائوس کا ایک بڑا افسر ہے‘‘۔

مجھے اسی وقت اس بات کی سمجھ آ گئی تھی کہ اب فردوس عاشق اعوان کی باری لگ گئی ہے۔ بیشک اس وقت بیورو کریسی کا وزیراعظم عمران خان نہیں بلکہ ایک بیورو کریٹ ہے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments