زمانے کے انداز بدلے گئے


سیارہ زمین اور اس پر بسنے والے انسان یکسر بدل گئے ہیں۔ بے بسی کیا ہوتی ہے، اب اندازہ ہوچکا ہے۔ نا دِ کھنے والے کرونا سے انسان خائف ہے۔ نظر تو خدا بھی نہیں آتا مگر اس سے ڈرنے کا رواج کم ہے۔ لوگ تبدیلی لانے کے بے سود دعوے کرتے رہے مگر حقیقی تبدیلی قہرونہ ہی لے کر آیا۔ پہلے پہل یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا پر بعد ازاں جانوروں کی حاجت نہ رہی اور یہ کام انسان نے خود کر دیا۔ اب محتاج وغنی ایک ہیں اور مذاہب اپنے شعائر پہ خود قد غن لگانے پہ مجبور ہیں۔

ہنوز کرونا دور است ”کے قائل ابتلا کے بعد اب مائل ہیں۔ افسانہء غم پہ ہنسنے والوں کے کاجل بہہ چکے اور اپنی اوقات سے آشنائی بھی ہو چکی۔ شک نہیں کہ آفات سے دنیا ماتم کدہ بن کر خوف، بھوک اور احتیاج کا شکار ہو جاتی ہے لیکن یہی نئے صبح وشام اور نئے زمانوں کی کھوج کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ حالیہ وبا سے انسانیت بہت کچھ سیکھنے جارہی ہے اور بہت سے اقدار بدلنے چلے ہیں۔ امیر غریب کی تمیز جاتی رہی اور گنگو تیلی سے راجہ بھوج تک برابر ٹھہرے۔

انا الحق کا نعرہ گونج رہا ہے۔ بنائے ہوئے، تراشے ہوئے اور سُجھائے ہوئے بُت پاش پاش ہوئے ہیں۔ تخت گرائے اور تاج اچھالے جارہے ہیں۔ بہت سے مثبت بدلاؤ آرہے ہیں۔ اک طویل عرصہ بعد گم شدہ اجتہاد کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ اسلام تاحشر ہر زمانے اور ہر خطے کا دین ہے اور اس میں ہر قسم کے حالات میں متبادل اجتہادی راستے موجود ہیں۔ اب باور ہوا ہے کہ دین کو محدود کرنے والوں کو اپنی فقاہت مآبیاں اپنے پاس رکھنا ہوں گی۔

اس آفت نے یہ سبق بھی پڑھادیا ہے کہ صحت کا بجٹ جملہ معاملات حتیٰ کہ دفاع پربھی فوقیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹرز ا اور پیرا میڈیکل سٹاف ہیرو اور موئثر مسیحا ثابت ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں طبی عملہ ہی واحد مجاہد اور نجات دہندہ ہے اوران کے نقاد اور معترضین بھی ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ پھر تعلیم، تربیت اور شعور کی اہمیت واضح ہوئی ہے کیونکہ یہ ایسے سنگین حالات کے سدِباب میں معاون ہیں۔ پولیس اورفوج کی حیثیت و اہمیت کا سبق بھی یاد دلایا گیا ہے۔

ڈاکٹرز اورپولیس حقیقی ہیروز بن کر ابھرے ہیں۔ اس وبا نے جہاں نئی ریسرچ کی راہیں کھولی ہیں تو ہمارے جیسے ممالک کی علمی و تحقیقی کسمپرسی اور ٹوٹکہ سازی کا بھانڈہ بھی پھوٹا ہے۔ یہ سبق بھی ملا ہے کہ ترقی کے باوجود افواہوں اورپیش گوئیوں کو نظر انداز کرنا بھی عقلمندی نہ ہے۔ اک عرصہ سے فلمساز، مصنفین، تخیلاتی افراد، ماہرینِ ماحولیات اور سائنسدان آفات کا عندیہ دے رہے تھے۔ چین کے ڈاکٹر لی اور ایران کے اک وزیر کی پیشگوئیوں پہ کان نہ دہرا گیا اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

لہٰذا اب ناولز، فلمز وغیرہ کو محض فکشن سمجھ کررد کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس وبا ء سے یہ بھی واضح ہو چلا کہ مستقبل کے سارے نظام صرف ٹیکنالو جی اور آن لائن سسٹم کے مرہونِ منت ہوں گے ۔ ہم اجتماعوں، تقریبات، محافل، مجالس اور ہلہ گُلہ کے دلدادہ ہیں مگر فطرت اس وبا کے ذریعے ہمارے رویوں کی نفی کر رہی ہے۔ بہت سی اقد ار خطرے میں پڑ گئیہیں۔ تنہائی اور سماجی فاصلے کی وجہ سے سب سے بڑا دھچکا مشترکہ خاندانی نظام کے در پے ہے۔

حد سے زیادہ آبادی نا قابلِ برداشت ہو چکی ہے کیونکہ یہ ماحول، خوراک اور معیارِ زندگی پر نہایت منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ اپنے علاوہ دوسرے مذاہب اور مسالک کو جھٹلانا بھی سراسر غلط ثابت ہوا ہے۔ کرونا کی تمام دنیا میں مساویانہ و دیانتدارانہ تقسیم نے سچے جھوٹے کی بحث ہی تمام کر رکھی ہے۔ خالق و مخلوق کے بیچ سے سارے رانگ نمبرز ہٹ چکے ہیں۔ اللہ دنیا میں بے عقل فالوورز کو چھان کر عقلی طور پر مضبوط فالوورز چُن رہا ہے۔

تاہم آج بھی ہر طبقہ اپنی حقانیت کی دلیل لئے پھرتا ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ دکھ کی گھڑی آ پہنچی ہے اور مسیح کے آنے کا وقت ہے۔ مسلمان بضد ہیں کہ شفاء صرف وضو میں ہے۔ ہندو بغلیں بجاتے ہیں کہ وہ صدیوں سے دور سے نمستے کے قائل تھے اور احتراقِ نعش (جلاتے ) کرتے تھے۔ جبکہ دہریہ خوش ہے کہ میں نہ کہتاتھے کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ تاہم آلودگی کم ہوئی ہے۔ اوزون نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے اور اس کی تاریخی مرمت جاری ہے۔

جرائم اور دیگربیماریوں کی شرح گھٹی ہے البتہ ماسک کی بدولت سادھ اور چور کی تمیز جاتی رہی ہے۔ میڈیا کا اوڑھنا بچھونا صرف کرونا ہے۔ امیر ممالک کا تیل زیرو پہ ہے اور غریب ممالک کی امداد زوروں پہ ہے۔ اپنے ہاں کچھ ایسا تھا ہی نہیں کہ خسارہ ہوتا۔ گھروں میں راوی بیکار کی فرصت ہی فرصت لکھتا ہے۔ تاہم گھر والوں سے خوب آشنائی ہے۔ فون پر بھولے بسرے احباب بھی رابطے میں ہیں۔ سب سے بڑھ کر دبنگ سبق ملا ہے کہ ضروررت سے زیادہ دولت، شہرت اور سہولت سب مایا ہیں۔ آخر انسان کو جینے کے لئے کتنا کچھ چاہیے ہے۔ گھر، کھانا، بستر اور کچھ بنیادی ضرورتیں اور بس۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے مگر خواہش بادشاہ کی بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔ اس وبا نے بہت سے نئے سبق پڑھا دیے ہیں۔ اب ایک نئی دنیا سامنے آئے گی۔ دیکھتے ہیں کہ کیسی ہوگی۔ بقول اقبال

زمانے کے انداز بدلے گئے۔ نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments