لاہور اور اس کے باسیوں کی وسعت قلبی



ایک کہانی سناتا ہوں کیونکہ آج کل کہانی سننے والے ناپید ہو چکے ہیں اور کہانی سنانے والے پیسوں کے بغیر کہانی کی ”ک“ بھی نہیں سناتے۔ جب میں کراچی گیا تو کراچی میں بلوچوں، سندھوں، پٹھانوں اور مہاجروں کی الگ الگ بستیاں دیکھی۔ بستی الگ ہونا کچھ غلط نہیں ہے۔ کیونکہ ایک جگہ کمیونٹی بن جاتی ہے اور سیٹل ہونا آسان ہوتا ہے۔ پر ہر جگہ تعصب کی فضا دیکھنے کو ملی تھی۔ ایک وفاقی اکائی دوسری کو اپنا دشمن اور اپنا حق کھانے والی گردانتی تھی۔

ہر کوئی کہتا فلاں صوبے والے ہمارا حق کھا رہے ہیں۔ ہر ایک کا یہی نعرہ دیکھنے کو ملا ہمیں دیوار سے لگا کر ہماری صوبائی شناخت کا استحصال کرنے میں دوسری تمام وفاقی اکائیاں پیش پیش ہیں۔ کچھ سال قبل جب کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جاتی تھی تب ان سبھی اکائیوں نے خون سے بھرپور انداز میں ہاتھ رنگے تھے۔ لیکن ڈھونڈنے پر بھی قاتل نہیں ملتا تھا کیونکہ تمام شہر نے دستانے پہنے ہوئے تھے۔ تب ایک صوبائی اکائی والے ایسے بھی تھے کہ جو اس خون بربریت سے کوسوں دور تھے۔

جب کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا وہاں پٹھان نوا کلی میں رہتے ہیں تو بلوچوں کا مسکن کلی اسماعیل ہے۔ جہاں مقامیوں نے مسافر کو بتایا تھا کہ اکبر بگٹی کے قتل کے بعد کلی اسماعیل میں اردو بولنا ممنوع پایا اور باقاعدہ ایک جرم قرار دے دیا گیا تھا اور پنجابیوں کو وہاں سے بے دخل کیا جانے لگا تھا۔ پنجابی مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے کی داستان کی تو ابھی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی۔

پشاور گیا تو وہاں اتنی فرصت میسر نہ آئی کہ مقامیوں سے ملا جا سکتا اور کچھ سمجھا جاتا۔ کیونکہ پشاور میں ہمارے پاس وقت قلیل اور کام کثیر تھے اور اس لیے پشاور والوں کے حق میں یا ان کی مخالفت میں ہمارے پاس اپنی کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ لیکن جب بھی سوات کی طرف جانا ہوا ہے لوگوں کو لالچ سے دور اور مخلصی کے قریب ترین پایا ہے۔ باقی سیاح دوست میری اس بات کی گواہی دیں گے۔

جب کشمیر جانے کا موقع ملا تو ادھر ہم جو جذبہ خیر سگالی اور صوبائیت سے پاک ہو کر آنکھوں میں حسین خواب سجائے خالص کشمیر جنت نظیر کی سیاحت کی نیت سے گئے تھے۔ مسافر کو پانی پلانا تو درکنارخوش آمدید کہنا تک مناسب نہ سمجھا گیا۔ آنکھوں کی چمک بھی ابھی مانند نہ ہوئی تھی کہ سنایا گیا ادھر کیا کرنے آئے ہو اپنے پاکستان واپس جاؤ۔ ہم جو شادابی سے فرصت کے چند دن گزارنے گئے تھے۔ طوعاً  و کرہاً دو دن میں وہاں سے پلٹ آئے۔

اس سب سے کوئی حتمی رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ لیکن اپنے ناقص تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ جتنا بھی پاکستان گھوما ہوں جتنے بھی لوگوں سے ملا ہوں جتنے بھی شہروں میں رہا ہوں۔ ان سب شہروں میں قیام کرنے، لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے اور شہر والوں کو کچھ حد تک سمجھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لاہور والوں میں راستہ غلط بتانے کے علاوہ اور کوئی عیب نہیں ہے۔ وہ بھی لاہور والے جان بوجھ کر راستہ غلط نہیں بتاتے۔ بلکہ مسافر کا بھلا کرنے کی کوشش میں اسے چھوٹے راستے سے بھیجتے ہیں۔ اور اپنے طور پر مطمن ہو جاتے ہیں کہ آج ہم نے لاہور والوں پر لگنے والے الزام کو غلط ثابت کردیا۔

لیکن صرف مسافر ہی جانتا ہے کہ آج اُس کے ساتھ کیا بیتی ہے۔ اور وہ اب کن القابات کے ساتھ لاہور والوں کو یاد کرے گا۔ اس کے علاوہ لاہور والوں میں، میں نے کوئی کسی طرح کا عیب نہیں دیکھا۔ لاہور والوں نے ہر صوبائیت کو، ہر شہریت اور ہر برادری کے لوگوں کو اپنے میں سما لینے کے بعد یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم ان کا پیٹ پالتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے شہروں سے لوگ فکر معاش اور تعلیم کی غرض سے منوں کے حساب سے لاہور میں آ کر رہتے ہیں۔

لاہور والے ماتھے پر شکن لائے بغیر خندہ پیشانی سے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ نہ ہی لاہور والوں نے کبھی یہ کہا کہ یہ باہر والے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ انہیں یہاں سے نکالا جائے۔ جبکہ لاہور میں زیادہ تر اہم جگہیں باہر سے آنے والوں کے تصرف میں ہیں۔ لیکن لاہور والے زبان پر حرف شکایت نہیں لائے۔ یہ شاید لاہور کی فضا میں وسعتِ قلبی ہے یا شہر کے ایک طرف خاموش لیٹے ہوئے بوڑھے راوی کی دعاؤں کا صدقہ ہے کہ جو بھی لاہور جاتا ہے برداشت اس کی گھٹی میں آ جاتی ہے۔ اور لاہور والے نئے آنے والوں کو نئے جذبے سے خوش آمدید کہنے کو پھر سے تیار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments