لاک ڈاؤن اور ماہ مقدس رمضان


”وہ امت کو بخشنے پہ آتا ہے تو تحفہ میں رمضان دیتا ہے“

رمضان المبارک امت مسلمہ پر اللہ‎ کا وہ احسان ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اس مہینے کے لیے ہمارے نبی نے بشار تیں دی ہیں۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار اور گناہ بخشوانے کا مہینہ ہے۔ یہ محبت، ہمدردی اور قلب کو اللہ‎ سے جوڑنے کا مہینہ ہے۔ یہ اتنی برکت والا مہینہ ہے کے اس کی ایک رات ہزار مہینو ں افضل ہے۔ اللہ‎ نے اس کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کو قیام کو ثواب کمانے کا ذریعہ بتایا ہے۔ رواں برس یہ مہینہ غیرمعمولی حالات میں آیا ہے۔

ایسے حالات کے جہاں دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے لوگوں کو سماجی دوری پر مجبور کیا ہے وہاں مسّلم ممالک بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہے۔ سماجی دوری، سفری پابندی اور اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے اسلامی رسومات اور عبادات جیسے عمرہ، نمازجمعہ یہاں تک کے تدفین تک کا عمل متاثر ہوا ہے۔ رمضان، جس مہینے میں خدا نے ہمارے نبی حضرت محمّد پر قرآن نازل کیا، نئے چاند کے دیکھنے کے بعد باضابطہ طور پر شروع ہوتا ہے۔ سعودی عرب امارت میں رمضان المبارک کا آغاز جمعہ کو ہوا اور ہمارے ہاں ہفتہ کو ماہ مقدس کا استقبال کیا گیا۔

تاریخی طور پر مساجدرمضان کے مہینوں میں عبادت گزاروں سے بھری پڑی رہتی تھی لیکن اس بار کورونا کے وبائی مرض (جو کے 185 ممالک میں پھیل چکا ہے ) نے ترجیحا ت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس سال رمضان لاک ڈ اؤن اور معاشرتی فاصلاتی پروٹو کول کی وجہ سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ موجودہ کورونا وائرس کے قواعد میں حفظان صحت کے طریقوں کو بھی رمضان میں شامل کیا گیا ہے۔ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں اجتما عات پر پابندی ہے اور بیشتر مذہبی مراکز اور مساجد بند ہیں۔

لوگ انفرادی طور پر گھروں میں ہی سہورو افطار کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں حکام نے مذہبی علما کے دباؤ میں مساجدمیں اجتماع کو محدود کرنے کے حکم کو مسدود کر دیا ہے جب کے کوو یڈ19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈ اؤن کی سخت ضرورت ہے۔ 28 اپریل تک پاکستان میں 290 سے زاید ہلاک اور تقریباً 140000 متاثر ہو چکے ہیں بہت سے لوگوں کے خیال میں تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق بھی حکمرانوں نے غلط فیصلہ کیا ہے، اور علما نے غیر سنجیدہ رویہ ظاہر کیا ہے۔

خیر ان ہٹ دھرم ملاؤں کو تو اپنی جیبں گرم کرنے سے غر ض ہے۔ اس مہلک وبا نے لوگوں کے لیے جو بحرانی کیفیت پیدا کی ہے اس سے انداز سے ہوا ہے کے انسان جتنی بھی ترقی کر لے وہ پھر بھی اللہ‎ کے سامنے بے بس ہے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں غریب طبقہ مزید بد حال ہو گیا ہے جبکہ سفیدپوش لوگ ان سے کہیں برے حالات کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کے وہ تو کسی کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کر سکتے۔ اس لیے کوشش کریں کے پاس پڑوس کوئی بھوکا نا رہے۔

ویسے تو تمام عبادات ہی آپس میں بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتی ہیں مگر روزے میں بھوک، پیاس کی شدت کا احساس ہمیں ان لوگوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو مستقل ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جسمانی دوری کے اس دور میں بحثیت مسلمان ہم دوبارہ اپنے اللہ‎ اور قرآن مجید سے گہری مباشرت کی سطح پر ہیں۔ لاک ڈ اؤن کی دلچسپ بات یہ ہے کے یہ حضرت محمد کا مستند عمل ہے کے وہ پہاڑوں کی چوٹی پر غار میں دن بھر اپنے آپ کو عبادت میں مشغول رکھتے تھے اور خدا سے جڑ جاتے تھے تو لاک ڈاؤن میں ہمیں بھی کم از کم اس ماہ مقدس ماہ میں فضول کاموں کو چھوڑ کر اللہ‎ سے لو لگا لینی چاہیے۔ کیوں کے ان دنوں ہم جس سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں ایسے میں رب کی طرف رجوع ہی راحت اور سکون کا ذریعہ ہے۔ رحمت کا عشرہ چل رہا ہے اگر ہم بھی اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کر توبہ استغفار کریں تو رب بہت مہربان اور رحیم ہے اس کی رحمت جو ہمارے گناہوں سے کہیں زیادہ ہے ہمیں معاف فرما دے گا اور اس وبا کو رمضان کے صدقے ٹال دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments