خدمت کی قضا نہیں ہے


فی زمانہ کچھ ایسا ہی رواج پروان چڑھ گیا ہے اور مزید ہم نے بھی اسے خوب پن٘پنے کا موقع دیا ہے کہ اگر کوئی اس دارِ فانی سے کوچ کر جائے تو ہمیں اس کی بہت ساری پوشیدہ اور مخفی خوبیوں کا نہ صرف ادراک ہونا شروع ہو جاتا ہے بلکہ ہم ان خوبیوں کا ڈھنڈورا بھی خوب پیٹتے ہیں اور مرحوم کی ہر کامیابی کو ایسے دادوتحسین دے رہے ہوتے ہیں کہ جیسے اس سے پہلے ایسا کبھی اس روئے زمیں پہ نہ ہوا ہو۔

جب تک انسان اپنے دو پیروں کو سانس کی ڈور سے ہم آہنگ کیے چلتا رہتا ہے ’لگتا ہے وہ اس آبلاپائی کی مشقت میں تنِ تنہا ہی چل رہا ہے۔ اور اس انجانی مشقت کو جیون کے آخری سانس تک نبھانے کی تگ و دو میں جُتا رہتا ہے۔ جیسے تیسے کر کے اپنے ختم ہوتے وجود اور ضمیر کو گھسیٹتا رہتا ہے اور جہاں سانس کی ڈوری ٹوٹی وہیں ہر کوئی راجہ گدھ بن کے آن دھما۔ مروجہ بین میں وہ مرحوم کی ایسی ایسی صفات گنوا دیں گے کہ مرنے والا بھی عالمِ برزخ میں عش عش کر اُٹھے۔

مرنے والے کے نام پہ لوگوں کو کھانا کھلانا اور ایصالِ ثواب کرنا ہمارے معاشرے کی اچھی اقدار میں سے ایک ہے لیکن یہ خبر شاید کسی کو بھی نہیں ہوتی کہ مرنے والا بھوک اور فاقوں ہی سے تو مرا تھا۔ زندگی میں اعضائے رئیسیہ کی جتنی اہمیت ہے ’کم و بیش اتنی ہی اہمیت زندگی میں امید‘ بھروسے اور ہمدردی کی بھی ہے۔ اگر جیتے جی ہم کسی کو امید ’بھروسے اور ہمدردی سے اپنے ہونے کا یقین نہیں دلا سکتے تو بعد از مرگ ہمدردی میں لکھا گیا پورا باب بھی اس کے کسی کام کا نہیں۔

جو بھی کرنا ہے ’جیتے جی ہی کیجئے۔ کسی کو آس امید‘ بھروسا ’حوصلہ‘ ہمدردی ’عزت اور اہمیت دینی ہے تو زندگی ہی میں دیجئے تا کہ اس کے حواس اس احساس کو محسوس کر سکیں۔ زندگی کے درپیش سفر میں مخلص ساتھ‘ چاہے وہ مشورے کی صورت ہی کیوں نہ ہو ’اہمیت رکھتا ہے۔ ہمدردی کے دو بول پریشانی تو شاید ختم نہ کر سکیں لیکن اس پریشانی سے نکلنے میں مددگار ضرور ہو سکتے ہیں۔ دو قدم ساتھ چلنے سے‘ آپ کی منزل کھوٹی ہوگی نہ وہ منزل پہ پہنچ سکے گا ’لیکن اس ساتھ سے اسے اپنی منزل تک جانے کا نیا حوصلہ ضرور مل جائے گا۔

اس معاشرے میں جہاں اور بہت کچھ جدت بسندی کا شکار ہو گیا ہے وہاں اس غلط رسم کو بھی اب ختم کر دینا ہو گا کہ جس میں ہمدردی کے دو بول سننے کے لئے مرنا شرط ہو۔ کیا یہ ضروری ہے کہ مریں گے تو ہی احباب ہماری تعریف و توصیف کے چند کلمات ادا کریں گے ’تب ہی وہ بتائیں گے ان کی زندگی میں مرنے والے کی کس قدر اہمیت تھی اور مرنے کے بعد ان کے بغیر اب پیدا ہونے والا خلاء کبھی پورا نہ ہوسکے گا۔ خلاء تو روٹی کے پہلے لقمے اور نیند کے پہلے جھونکے ہی میں پورا ہو جائے گا‘ نہیں ہوگا تو اس مرحوم کا اس کی زندگی ہی میں ادا ہونے والا حق قضا ہو جائے گا۔

بابا نور سائیں فرماتے تھے کہ:
عبادت کی تو قضا ہے لیکن۔ خدمت کی قضا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments