کووڈ 19 کی وبا میں مقامی حکومتوں کا کردار


پاکستان میں قدرتی آفات کے دوران اور بعد میں ہر دفعہ بے ربط اور غیر منظم رسپائنس نظر آتا ہے۔ جو اپنے آپ میں مزید ایک بحران پیدا کر دیتا ہے۔ ماضی کی ساری قومی آفات اس سے کچھ مختلف نہی تھی۔ یہاں پر مسئلہ اصل شراکت دارون کی نشاندہی اور انہیں قلیل اور طویل مدتی منصوبہ بندی میں شریک نا کرنا ہے۔ کسی بھی آفت میں سب سے بڑے شراکت دار مقامی حکومتیں اور متاثرہ کمیونٹی ہوتی ہیں۔

وبائی امراض عالمی ضرور ہیں لیکن اس کا رسپانس صرف مقامی سطح پر ہی ممکن ہے۔ مقامی حکومتیں ایک منتخب انتظامی ادارہ ہے جو مقامی سطح پر عوام کو مختلف خدمات فراہم کرتی ہیں۔ مقامی حکومتیں عوام کے ساتھ جڑی ہونے کے ساتھ عوامی مسائل سے پوری طرح واقف ہوتی ہیں۔ یہی خوبی انہیں نئے حالات سے ہم آہنگی کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔ اسی وجہ سے ہنگامی صورتحال میں سب سے پہلے پہچنے والے اور اگلی صفوں میں کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ آفات ہی ایسا موقع ہے جب کسی ادارے یا کمیونٹی کی صلاحیت کو صحیح طرح جانچنے اور اضافہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔

دنیا کے تعلیمی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مباحثے ہو رہے ہیں کہ شہری حکومتوں نے کووڈ 19 کی وبا پر کیسا ردعمل دیا۔ دوسری جانب، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے میئر وسیم اختر اپنے ملازمیں کو وقت پر تنخواہیں دینے سے قاصر ہیں۔ مگر ہماری گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا معیشت پاکستان میں تمام چیلنجوں کا جواب مرکزی طرز حکمرانی سمجھا گیا ہے۔

پاکستان میں آج صرف سندھ اور وفاقی دارالحکومت میں مقامی حکومتیں مالی وسائل اور انتظامی اختیارات سے محروم موجود ہیں۔ جبکہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہی نہیں۔ بلوچستان میں جنوری 2019 ء، پنجاب بھر میں مئی 2019 ء اور خیبر پختونخوا میں بھی اگست 2019 ء کے بعد سے مقامی حکومتوں موجود نہیں۔ ان تینوں صوبوں میں مہینوں گزرنے کے بعد بھی انتخابات کے آثار نہیں ہیں۔ مطلب یہ کہ اس وقت صرف ایک چوتھائی پاکستان میں لنگڑی لولی مقامی حکومتین موجود ہے۔

موجودہ غیر معمولی حالات ہمیں شہری سظح پر تین قسم کے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
1۔ متاثرین تک امداد کی فراہمی،

ایک ہنگامی صورتحال میں شناخت کا عمل آسان نہیں ہوتا کہ کون زیادہ مستحق ہے اور کون نہیں۔ اس کے لیے کوئی جادوئی فارمولا نہی چاہیے بس مقامی حکومتوں اور کمیونٹی کے کردار کو بڑھانا ہے۔ نوبل انعام یافتہ پروفیسر ابھیجیت بینرجی کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں مستحق لوگ حکومتی اسکیموں سے مستفید نہیں ہوپاتے۔ ان کی شناخت کے لیے ’مقامی کمیونٹی کا طریقہِ کار‘ اپنانا چاہیے جو یہ یقینی بنائے کہ امداد متاثرہ لوگوں تک پہنچے۔ بیوروکریسی کے افسران کی مخلصی ایک طرف مگر جب متاثرہ افراد کی شناخت کا عمل مکمل نا ہو تو کسی بھی قسم کے اختیارات بے معنی ہو جاتے ہیں۔

2۔ وبا سے بچاؤ اور لاک ڈاؤن کا مکمل نفاذ،

ہنگامی صورتحال میں عوام میں نظم ضبط کا نا ہونا دراصل لوگوں کا حکومت پر اعتبار کی کمی ظاہر کرتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندے عوام سے قریب تر اور اپنے مقامی سطح کے تجربے بروے کار لا کر عوام کا حکومت اقدامات پر اعتماد قائم کر سکتے ہیں۔ وبا کے بارے میں منفی خبروں اور افواہوں کا سدباب بھی منتخب نمائندے ہی مقامی سطح پر کر سکتے ہیں۔

3۔ بحالی اور طویل مدتی تخفیف اور تیاری،

جزوی بحالی میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ خوراک، سامان اور ضروری کاروباروں کو کس طرح مرحلہ وار کھولا جائے کہ اس سے نئے انفیکشن اور اموات نہ ہوں۔ اس وقت کے جب ہماری کمیونیٹیز اور مقامی کاروباری اداروں کو بے مثال مشکلات کا سامنا ہے، ہماری شہری حکومتوں کے پاس بحران کے انتظام کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وبا کو آئے مہینوں کے بعد بھی ضروری ایس او پیز وفاقی اور صوبائی حکومتیں تیار نہی کر پائیں۔

طویل مدتی تخفیف اور تیاری کے مراحل میں مقامی حکومتوں کا کردار مزید بڑھ جاتا ہے۔ ایک بار وبا یا آفت کے رسپانس کے مرحلے کے بعد، صرف مقامی حکومتوں کے منتخب عہدیدار اور مقامی برادری ہی طویل المیعاد تخفیف اور تیاری کے مرحلے کی سرگرمیاں انجام دینے کے لئے پیچھے موجود رہیں گے۔

ملک کے تیسرا سب سے بڑا انتظامی ڈھانچہ اپنی افادیت اور وجود کی جنگ میں مصروف ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے زیادہ سے زیادہ وسائل اور اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھے ہئے ہیں۔ اصولی طور پر دیکھاجائے تو ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کاکام قانون سازی کرنا ہے، سڑکیں اور نالیاں بنوانا نہیں۔ جبکہ نام نہاد ترقیاتی فنڈ زکی آڑ میں عوامی وسائل پر قابض ہیں۔ ضلعی افسرشاہی بھی کسی بھی طور پر منتخب مقامی رہنماؤں کے زیر اثر آنے کو تیار نہی۔

صوبہ سندھ میں اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں ہر ضلع کی سطح پر بنائی گئی ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی دس سالوں کو بعد بھی فعال نہیں ہو سکی ہیں۔ ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان میں بیس کے قریب افراد میں سے صرف دو ہی منتخب نمائندے ہیں وہ بھی بیوروکریسی کے ایک افسر کے ذریعہ نامزد ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضلعے سطح پر فیصلہ سازی میں منتخب مقامی حکومتوں کی نمائندگی کس حد تک ہے۔

حکومت ملنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی نظام اور مقامی حکومتوں کے بہت حامی تھے۔ مگر اب تین صوبوں کی حکومت میں شامل ہونے کے باجود بھی کوئی نیا یا پرانا بلدیاتی نظام نافذ نہیں کر سکے ہیں۔ جمہوریت اور اختیارات کے نچلے سطح پر پہچانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ابھی بھی باقی ہے۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے بیچ اختیارات اور وسائل کی جنگ میں نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔

سوال یہ یہ پیدا ہوتا ہے ؛ آج ہم ایسا کیا کریں جو مستقبل کی آفات اور ہنگامی صورتحال کی ضروریات سے نپٹ سکیں۔

صوبوں اور مقامی حکومتوں کو اب اپنی ترجیحات کا جائزہ لینے، اختیارات اور وسائل کی تقسیم کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اس بات کا تعین پہلے سے ہی کیا جاسکے کہ آفات میں ضروری خدمات کی یقینی فراہمی اور وسائل کو متاثرہ علاقوں تک فوری کیسے منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کمیونٹی موافقت کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور پالیسیوں کو عمل درآمد کروانے میں مقامی حکومتیں قیادت کی ذمہ داری دینی ہوگی۔

مستقبل کی وبائیں، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات میں مقامی حکومتوں کا موثر نظام عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔ مقامی حکومتوں کی شمولیت کے بغیر مستقبل کے خطرات سے نبرد آزما کسی طویل مدتی منصوبہ بندی کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments