جو سچ کہوں تو برا لگوں


مولانا طارق جمیل صاحب اپنے بیانات میں فرماتے ہیں کہ معافی مانگنے سے عزت کم نہیں ہوتی محبت پھیلاؤ نفرتیں پہلے بہت زیادہ ہیں وہ ہر بیان میں یہی ارشاد فرماتے ہیں۔ مولانا نے وزیر اعظم کی احساس اسکیم کے دوران دعا سے پہلے کچھ ایسے کلمات کہے جو کہ مخصوص طبقے میڈیا اور کچھ عورتوں کو بالکل ہضم نہ ہوئے جو کہ صحیح تھے مگر ان کو سارے طبقے پر لگا نا سراسر غلط ہے۔ ہر طبقے میں جہاں اچھے لوگ ہوتے ہیں وہاں برے لوگ بھی ہو تے ہیں۔

حامد میر اور محمد ملک نے ٹاک شو میں مولانا طارق جمیل کو مدعو کیا اور مولانا طارق جمیل نے اس ٹاک شو میں سب سے معافی مانگی کہ میں اپنے کیے پر معافی مانگتا ہوں لیکن ا س کے بعد مولانا کے ماننے والے سامنے آئے اور مولانا کے حق میں بولنے لگے جو کہ ایک اندھی تقلید کی طرف اشارہ ہے مولانا کا کہنا ہے کہ ملک میں سُنا جانے والے سب سے بڑا اسپیکر ہوں جوکہ بالکل صحیح بات ہے لیکن مولانا ان کو یہ سبق دینا بھول گئے کہ میں نے اپنے بیانات میں کہا ہوا ہے کہ معافی مانگنے سے کسی کی عزت کم نہیں ہوتی۔ لیکن مولانا آپ بیانات پر یہ قوم کب عمل کرے گی؟

مولانا حامد میر اور محمد ملک اینکر پرسن نے جو کہا سو کہا جتنی آپ کی عزت کم کی لیکن اب یہ دیکھیے کیا آپ کے چاہنے والے ان کے خاندان تک پہنچ گئے۔ مولانا ملک تو بعد میں ٹھیک ہوگا پہلے آپ اپنے ماننے والوں اور چاہنے والوں کے اخلاقیات پر اور آپ کے بیانات پر عمل کرنے کی نصیحت کریں۔

مولانا آپ اپنے ماننے والوں کو وہ بیانات سنائیں جس میں آپ محبت محبت کا درس دیتے ہیں اور معافی مانگنے سے عزت کم نہیں ہوتی اس کا درس دیتے ہیں مولانا آپ کسی طبقے پر حملہ کر کسی کی دل آزاری کر رہے ہیں اور مزید طبقات کے درمیان نفرتوں کو جنم دے چکے ہیں۔

مولانا نے جہال میڈیا سے بحث کرنا بہتر نہ سمجھا اور معافی مانگ کر جان چھوڑا لی؟ صحیح کیا۔ اب جاہل کون؟

مولانا میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ کوئی شخص کوئی طبقہ اپنی عزت پر حملہ برداشت نہیں کرتا جس طرح آپ نے پورے میڈیا کو غلط کہا تو میڈیا کے کچھ افراد کھڑے ہوگئے اور آپ کے خلاف اعلان جنگ شروع کردیا اسی طریقے سے عزت معافی مانگنے سے کم نہیں ہوئی لیکن آپ کے ماننے والوں کی نظر میں آپ کی عزت کم ہوئی اور آپ کی عزت کا پرچار کرنے نکل پڑے اور آپ یہ مان لے اگر کوئی مشہور شخص کھڑا ہوجائے اور سارے مولویوں اور عالموں پر ایک انگلی اٹھا دے کہ سارے مولوی اور عالم فرقہ بازی کر رہے ہیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ کچھ مولوی کھڑے ہوجائیں گے اُس مشہور شخص کے خلاف کہ یہ کون ہوتا ہے ہم پر بات کرنے والے؟

مولانا ہماری عورتوں کو کون نچوا رہا ہے؟ مولانا آپ نے عمران خان کے حق میں بات کی مولانا اب یہ بھول گئے کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس کے جلسوں میں نوجوان لڑکیاں ناچتی تھیں مولانا کرونا وبا کو پھیلے ہوئے دو ماہ ہونے کو ہے اور ملک بالکل تبدیل ہوچکا ہے حکمران جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں مولانا یہ فلم انڈسٹری کیوں چل رہی ہے؟ حکمران چاہیں تو ابھی بے حیائی کو ختم کر دیں۔ مولانا نواز شریف دور میں آپ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور اب عمران خان دور میں آپ عمران خان کے ساتھ ہیں مولانا کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

آخری بات آپ ہمیشہ محبت بانٹنے کی بات کرتے ہیں اور آپ کا خود کہنا ہے کہ میں الحمدللہ پاکستان میں سب سے زیادہ سنا جانے والا سپیکرہوں جو کہ بالکل صحیح بات ہے مولانا کیوں نہ یہ محبت اپنے ماننے والوں کے دل میں پھیلائی جائے مولانا کیوں نہ اپنے ماننے والوں کو یہ بتایا جائے کہ دوسرے فرقے کے عالم اور ان کے مولویوں کی بھی عزت کی جائے۔ بنیادی عقائد سب کے ایک ہیں لیکن خیالات اور نظریات نے فرقوں کو جنم د یا۔

مولانا اب آپ کیوں خاموش ہیں جب ملک میں بہت سے طبقات آپس میں آپ کی وجہ سے لڑ رہے ہیں کوئی آپ کی عزت کا پرچار کر رہا ہے اور کوئی انکرپرسن کے گھر والوں تک کو نہیں چھوڑ رہا مولانا آپ تو سب سے زیادہ سنے جانے والے سپیکر ہیں اور آپ تو محبت بانٹنے نکلے ہیں مولانا۔

مولانا طارق جمیل کا کسی فرقہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے مولانا طارق جمیل کے خیالات دیوبند فرقے سے ملتے ہیں لیکن مولانا طارق جمیل دیوبند نہیں ہیں مولانا طارق جمیل کے ماننے والے دیوبند ی کہلاتے ہیں لیکن مولانا طارق جمیل دیوبند ی نہیں ہیں۔

مولانا مان لیجیے کہ آپ بھی ایک فرقہ چلاتے ہیں جس کو دیوبند یا تبلیغی جماعت کا فرقہ کہا جاتا ہے اور مولانا جب تک کہ فرقوں میں انسان بٹا رہتا ہے محبت کبھی بانٹتی نہیں ہے مولانا فرقہ ایک علیحدہ دکان کا نام ہے کہ جو دکان آپ چلا رہے ہیں آپ صرف اسی کی ہی طرف داری کریں گے مولانا دوسری دکان سے اچھا مال مل سکتا ہے کیا؟ مولانا کبھی آپ کے ماننے والوں نے بھی کسی اور فرقے کی کوئی اچھی بات بیان نہیں کی۔ جب کے آپ فرقہ بازی نہیں کرتے لیکن یہ سوچ کہاں سے آگئی؟

اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ اندھی تقلید ہمارے معاشرے کو کبھی ا بھرنے نہیں دے گی۔ یہ قوم ایک جذباتی قوم ہے اور اس نے اپنی سوچ پر تالے لگا دیے ہیں جو کچھ ان کا پیر اور مولوی کہے گا وہی مان لیں گے اور یہ لکیر کے فقیر ہیں اور ایسی قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ یہاں پر یہ بات غور طلب ہے کہ یہ مولوی حضرات خود تو ایک پلیٹ فارم پر کبھی ا کٹھے ہو نہیں سکے تو یہ قوم کو کیسے اکٹھے کریں گے جبکہ یہ اندھی قوم اِن کے آپس میں لڑتی ہے۔

جبکہ ان مولوی حصزات کے پاس ہم سے بہت زیادہ دین کا علم ہے اور دین تو ہے ہی بھائی چارے اور محبت کا دین۔ سچ کو سچ کہیے اور جھوٹ کو جھوٹ کہیے اور یہی ایک معیار ہے زندہ معاشروں کا اور ایسے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں آپ کا مولوی بھی غلط ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایک انسان ہے اور انسان سے ہی غلطی ہوتی ہے۔ ہمت پیدا کیجیے اور معاشرے میں امن اور سکون قائم رکھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments