کیا کورونا عذاب الٰہی ہے؟


لا علمی، کم فہمی، کج بحثی، توہم پرستی، ضعیف الاعتقادی، روایت پسندی اور برہنہ جہالت کا ملغوبہ جب ضد، ہٹ دھرمی، انانیت، تعصب اور تنگ نظری کی بھٹی میں تیار ہوتا ہے تو وہی صورت حال جنم لیتی ہے جو آج کل ہمارے ہاں جنم لے چکی ہے۔ پھر ہمارے وارثان منبر و محراب اور حاملان جبہ و دستار کسی وبا، بیماری، ناداری و افلاس اور قدرتی آفات کو قوانین فطرت کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے ان چیزوں کو قہر خداوندی سے تعبیر کر کے سادہ لوح عوام کو فکری گمراہی میں مبتلا کر نے لگتے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیلاب بلا خیز میں جان، مال، فصلیں، مویشی اور کل زندگی کی جمع پونچی بہہ جاتی ہے اور اس پر قیامت یہ کہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے مصیب زدگان کو واعظان خوش نوا و پارسان خود نما کی طرف سے یہ جگر پاش اور دل سوز طعنہ بھی سننا پڑتا ہے کہ اللہ کا یہ عذاب ہمارے اپنے گناہوں اور سیاہ کاریوں کے کارن آیا ہے۔ زلزلوں میں ہزاروں نفوس لقمہٕ اجل بن جاتے ہیں اور ہم اسے اپنی ناقص حکمت عملی، محدود علم اور ریاست کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے صدیوں پرانے بے سرو پا اور فرسودہ بیانیے کی بوسیدہ چادر میں لپٹ کر عذاب الہٰی قرار دے کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ وبائیں آتی ہیں اور کروڑوں انسانوں کو نگل جاتی ہیں اور ہم اس افتاد کو طبی بحران مان کر تدبیر سے اس کے آگے بندھ باندھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا غضب سمجھ کر ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں کسی قوم کے افراد کو عذاب کا مزہ چکھانے کا یہ طریقہ بتایا ہے۔

”اور آپ کا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کسی مرکزی بستی میں رسول نہ بھیج لے جو انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے۔ نیز ہم صرف ایسی بستی کو ہلاک کرتے ہیں جس کے رہنے والے ظالم ہوں۔“ (القصص)

اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم نوح وغیرہ کو عذاب میں مبتلا کرنے کا ذکر کیا ہے۔ سورہ العنکبوت میں ارشاد ہوتا ہے۔

”ان میں سے ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی پاداش میں دھر لیا۔ پھر ان ہلاک ہونے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ہم نے پتھراٶ کیا اور کچھ ایسے جنہیں زبردست چیخ نے آ لیا اور کچھ ایسے ہیں جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے ہیں جنہیں ہم نے غرقاب کر دیا“ ۔

اللہ کا عذاب رسولوں کے مخاطبین تک محدود رہا۔ رسولوں نے پہلے انذار کا فریضہ انجام دے کر اتمام حجت کر دیا۔ کسی بستی پر عذاب سے قبل رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو بحفاظت نکال دیا گیا۔ صرف گنہگار اور نافرمان ہی اللہ کے عذاب کا نشانہ بنے اور فرمانبردار اور صالحین محفوظ رہے۔

افسوس کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں اور شدت پسند مذہبی طبقوں نے کورونا کی وبا کو قانون فطرت کے تحت وقوع پذیر ہونے والا طبی بحران ماننے کے بجائے سیدھا سیدھا اسے ہماری شامت اعمال قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار حاصل کرنے کا آسان راستہ اپنایا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس موذی مرض میں مبتلا ہونے والوں کی اکثریت مذہبی لوگوں کی ہے اور وہی اس کے پھیلاٶ کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ یہ دنیا مادی اسباب و علل کے تابع ہے۔

اللہ دنیا کو قوانین فطرت کے تحت چلا رہا ہے اور براہ راست امور میں مداخلت نہیں کر تا۔ اگر ایسا ہو تو انسانی زندگی کے فلسفے کی ساری عمارت ہی ڈھ جائے۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ قدرتی آفات اور وبائیں وغیرہ قوانین فطرت کے اصولوں کے تحت آتی جاتی ہیں۔ زلزلے زیر زمین پلیٹوں کی حرکت سے زمین کو تہ و بالا کرتے ہیں۔ سیلاب حد سے زیادہ بارشوں اور جنگلات کے بے تحاشا کٹاٶ اور عدم موجودگی کی وجہ سے آتے ہیں۔ سمندری طوفان ہوا کے دباٶ میں عدم توازن کی بنا پر برپا ہوتے ہیں۔

اسی طرح وبائیں بھی فطرت کے قوانین کے تحت آتی ہیں۔ جوں جوں انسان وباٶں اور قدرتی آفات پر قابو پانے میں کامیاب ہوتا جاتا ہے تو یہی وبائیں اور آفات قصہٕ پارینہ بن جاتی ہیں۔ ایک صدی پیشتر جن وباٶں اور قدرتی آفات سے کروڑوں انسان جان سے گزر جاتے اور بچے معذور ہو جاتے تھے آج طب کے ماہرین نے ان پر مکمل طور قابو پالیا ہے۔ سال ڈیڑھ سال بعد کورونا جیسی جان لیوا وبا بھی ماضی کا قصہ بن جائے گی۔

اگر قدرتی آفات اور وبائیں اللہ کا عذات ہوتیں تو 2005 میں آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات میں برپا ہونے والے شدید زلز لے میں نسبتاً زیادہ دیندار اور مذہبی لوگ نہ مارے جاتے۔ یورپ کے بے شمار ممالک سطح سمندر سے چند فٹ نیچے واقع ہیں۔ ان ممالک نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو دعا سے نہیں بلکہ دوا سے پایا۔ بنگلہ دیش نے بھی رفتہ رفتہ سیلاب کی یلغار کے سامنے کامیاب حکمت عملی سے بند باندھ لیا ہے۔ وہاں کون سا حکمرانوں نے اسے روکنے کے لیے ٹی وی پر دعائیہ اجتناعات منعقد کیے ہیں؟ جاپان کے مقتدر حلقوں نے بھی زلزلوں کی ہولناکیوں پر قابو پانے کے لیے مذہبی طبقے کی خصوصی دعاٶں کا اہتمام کرنے کے بجائے سائنٹفک اصول اپنائے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں مگر ایک مختصر کالم میں گنجائش کم ہے۔

یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالٰی کو اپنا آپ منوانے کے لیے عذاب، عتاب اور سختی ہی کا طریقہ کیوں اختیار کرنا پڑتا ہے؟ وہ تو سراپا رحمت و شفقت اور جود و سخا کا منبع ہے۔ اپنی ربوبیت کا اظہار وہ نوع بشر پر اپنی بے پایاں رحمت و شفقت سے بھی تو کر سکتا ہے۔ کورونا کا تعلق میڈیکل سائنس سے ہے۔ جو ملک خواہ وہ کتنا ہی مشرک، ملحد اور اخلاق باختہ کیوں نہ; جس قدر جلد کورونا کے خلاف زیادہ مٶثر سائنسی تدبیر اختیار کرے گا اتنا ہی جلد اس مو ذی وائرس پر قابو پائے گا۔ جب کہ مذہب کا تعلق انسان کے تزکیہٕ نفس اور اخلاق کی تطہیر سے ہے۔ دونوں میدانوں کو باہم مربوط کرنا خاکسار کے نزدیک کج فہمی کا نتیجہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments