احساس اور احساسِ ذمہ داری!


صاحبِ ”نہج البلاغہ“ حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکریم کا ایک قولِ بلاغت نظر نواز ہوا، مفہوم جس کا یوں ہے کہ کسی شخص کی قدر و قیمت کا اندازہ اُس کے اندر اِحساسِ ذمہ داری سے لگایا جاتا ہے۔ اِس قولِ حکمت پر غور جہانِ معانی کے پرت کھولتا چلا جاتا ہے۔

یہ کائنات اور ِاس کائنات کے اندر انسان کی زندگی۔ معاشی، معاشرتی اور طبعی زندگی۔ کا دار و مدار اُس کے ذمے فرائض کی خوش اسلوبی سے ادائیگی پر موقوف ہے۔ سچ ہے ’جو ذرّہ جس جگہ ہے‘ آفتاب ہے۔ ایک ذرۂ بے مایہ بھی اگر اپنے فرائض کماحقہ ادا کر رہا ہے تو وہ گراں مایہ ہے۔ اُس ذرّے کو مثل ِ آفتاب روشن کر دیا جاتا ہے، اُس کا ذکر ’خیر کی وادیوں میں روشن کر دیا جاتا ہے۔

حیات اپنی اصل میں حیاتِ معنوی ہے۔ زندگی کا مادّی اور طبعی رُخ اخروٹ کے چھلکے کی طرح ہے، لیکن مغز ِ حیات اِس کے اندر ہے۔ اسے باطن کہہ لیں، ہر باطن کا پھر ایک باطن ہے۔ اسے باطن البطون کہہ لیں۔ مغز کے اندر ایک تیل ہے۔ جو نہ شرقی ہے ’نہ غربی۔ اَرض و سمٰوات کی سب روشنی اِسی سے ہے۔ معانی کی تلاش کے سفر میں انسان کا رُخ باہر سے اندر کی طرف ہے۔

گھر سے بات شروع کرتے ہیں۔ کہ گھر گھر کی بات ہے۔ بیوی اگر اپنے فرائض سے غافل ہو تو گھر ’گھر کی شکل نہیں بن پاتا۔ درست ہے‘ بچے جانور کے بھی پل جاتے ہیں۔ لیکن وہ جانور ہی رہتے ہیں۔ حیوانی حیات ’حیاتِ انسانی بنانا اصل کام ہے۔ مانا‘ ممتا ایک فطری جذبہ ہے، لیکن تربیت کے حوالے سے اِس جذبے سے بڑھ کر بھی بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ بچوں کو ”کرنا چاہیے“ اور ”نہیں کرنا چاہیے“ کے سانچے گھر میں بنا کر دیے جائیں۔

تربیت کے اِن سانچوں کی تشکیل ماں اور باپ مل کر کرتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے گھروں سے نکلنے والے بچے تمام عمر ٹوٹ پھوٹ کا شکاررہتے ہیں۔ میاں اور بیوی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں تو ایک گھر نہیں بلکہ ایک نسل برباد ہو جاتی ہے۔ ماں اور باپ کی حیثیت سے فرائض کی یہی ریاضت آنے والی نسلوں کو معاشرے کے لئے کارآمد بناتی ہے۔ اس طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے سے وفادار ہونا ’مذہبی ہی نہیں‘ ایک معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔

بحیثیت اُستاد ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے شاگردوں کو اپنے مطالعے کے بہترین حصے کا گواہ بنائیں۔ انہیں کتاب میں موجود لفظ سے نکال کر مصنف کے ذہن میں موجود خیال تک لے جائیں۔ ہماری ذمہ داریوں میں ہے کہ اپنے شاگردوں کو سوچنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھائیں۔ انہیں اختلاف کے آداب کی تعلیم بھی دیں، اپنی رائے سے مختلف رائے کا احترام کرنابھی سکھائیں۔ آدابِ زندگی سکھانا ایک استاد کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ اِحساسِ ذمہ داری سے سرشار استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ رشتے کے تقدس کو کسی اور جذبے کے ساتھ آلودہ نہیں کرتا۔

اسی طرح بطور معالج ہماری ذمہ داری ہے کہ مریض کے دکھ کے ساتھ ساتھ اُس کے درد کا درماں بھی کریں۔ طب کو تجارت نہ بنائیں۔ خدمت کو تجارت بنانے والا مسیحا نہیں ہو سکتا ہے ’وہ ایک دکاندار ہوتا ہے۔ دست ِ شفا پانے کے لئے ہاتھ سے بہت کچھ گنوانا پڑتا ہے۔

بحیثیتِ اِنسان ’ہماری یہ بھی ایک ذمہ داری ہے کہ ہم اِس کائنات میں اپنے نام، کام اور مقام کی پہچان کریں۔ اِس کائنات کو ایک حادثہ نہ سمجھیں‘ بلکہ ایک قافلہ سمجھیں۔ اس قافلے کے ایک فرد کی حیثیت سے ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس قافلۂ حیات سے کچھ وصول کر رہے ہیں تو اِسے پہلے سے بہتر حالت میں واپس کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اِس کائنات میں اپنا کام اور مقام تلاش کرنے کے لئے ہمیں وہ آسمان بھی تلاش کرنا ہے ’جس کاہم اِک ٹوٹا ہوا تارا ہیں۔

جب تک کائنات کا مرکز تلاش نہیں کر پاتے‘ خود کو ہی اِس کائنات کا مرکز قرار دے دیں۔ اپنے گھر سے کہانی شروع کریں، شاید اُلجھے ہوئے دھاگے کی ڈور سلجھ جائے۔ شاید اِس ناتمام کائنات کا نقشہ مکمل ہوجائے۔ اس کائنات کا نقشہ نہیں ’تو اپنا نین نقشہ سہی! عجب راز ہے‘ اندر سے باہر آئیں تو یہ کائنات بامعنی لگتی ہے، باہر کا تعلق اندر سے منقطع کر دیا جائے ٗ تو یہ کائنات بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ یہی cosmos جب chaos بنتی ہے تو شعور کی بجائے شور سنائی ہے۔

اِس کائنات کا حسن ’حسنِ ترتیب ہے۔ انسان اِس کائنات کا باطن ہے۔ کائنات میں ترتیب اِنسان ہی کے آئینے میں منعکس ہوتی ہے۔ انسان کی آنکھ ہی عین اِس ترتیب میں فاصلوں میں ایسا توازن پیدا کرتی کہ حسن دکھائی دینے لگتا ہے۔ انسان عین کائنات نہ سہی‘ کائنات ضرورہے۔ کائنات کا حسن دیکھنے کے لئے ابھی تک انسانی آنکھ سے بہتر کوئی آئینہ میسر نہیں۔ دُور بین یا خورد بین لاکھ منظر کو چھوٹا بڑا کر لے ’جہاں بین انسانی آنکھ ہی ہوتی ہے۔

انسانی آنکھ ہی وہ آئینہ ہے‘ جس میں حسنِ کائنات منعکس ہو کر قلم بند ہو رہا ہے۔ اِس آئینے کو دیکھنے کے لئے بھی ایک آئینہ درکار ہے۔ ہر آنکھ صرف اپنی بساط بھر کائنات ہی دیکھ سکتی ہے۔ کوئی آنکھ تو ایسی ہوگی جو کامل ہوگی، جو اِس کائنات کو کما حقہ اور۔ ”کماھی“ دیکھتی ہوگی۔ ایک آنکھ ایسی بھی ہے ’جو ”مازاع البصر وما طغٰی“ کی شان سے متصف ہے۔ اَپنی اُمت کو ”اللھم ارنا الاشیاء کماھی“ ( اے اللہ! مجھے اَشیا کو دکھا‘ جیسا کہ وہ حقیقت میں ہیں) کی دُعا تعلیم کرنے والی ذات ﷺ اِس کائنات کو ”کماھی“ دیکھ چکی ہے۔ یہ واقعہ معراج ہی کا نہیں ’بلکہ بعد اَز معراج تنزیل کا بھی ہے! اپنی اور اپنی کائنات کی معنویت پانے کے لئے ہمیں اُس ذات ﷺ سے تعلق اور پھر اُس ﷺ کی تعلیم کیے گئے فرائض و نواہی سے تمسک درکار ہے۔ دینی پیرائے میں اَوامر و نواہی کی اس پاسداری کے احساس اور احساسِ ذمہ داری کو تقویٰ کہا جائے گا۔ ”اِنّ اَکرمکم عند اللہ اَتقٰکُم“ ۔ قولِ علی ؑ کی تشریح اِس آیت ِ جلی میں موجود ہے۔

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments