کیا کرونا وائرس بے حیائی سے پھیلا ہے؟


جب شروع شروع میں کرونا وائرس نے چین کے شہر وہان کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا تھا تب پاکستان میں نہایت ہی معتبر طبقے کی طرف سے یہ درس دیا جاتا تھا کہ چین لادین ملک ہیں، چینی لوگ حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں، غیر معیاری چیزیں بنا بنا کر دنیا کو بیچتے ہیں، جوا، سود خوری، عصمت فروشی، شراب نوشی اور ملاوٹ کی وجہ سے خدا نے اپنا عذاب نازل کیا ہوا ہے، عنقریب چین تباہ و برباد ہو جائے گا وغیرہ۔

کرونا وائرس کا پہلا مریض دسمبر 2019 کے دوسرے ہفتے چین کے شہر وہان میں سامنے آیا۔ 31 دسمبر 2019 کو ڈبلیو ایچ او کی طرف سے اس وبا کو نوول کرونا ڈکلیئر کیا گیا۔ یہ وبا 20 اپریل 2020 تک تقریباً 210 سے بھی زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے۔ کرونا وائرس کی چار ماہ کی تاریخ میں چین وہ واحد ملک ہے جس نے دو ماہ کی قیل مدت میں کرونا وائرس پر مکمل قابو پایا ہے اور اب وہان شہر مکمل طور پر کھل چکا ہے۔ چین کے بعد ’کیرالہ‘ بھارت کی پہلی ریاست ہے جس نے قلیل مدت میں کرونا پر قابو پایا ہے، اور چائنہ کی سرحد کے ساتھ چھوٹا سا غیر مسلم ملک ویتنام نے بھی کروانا وائرس پر مکمل قابو پایا ہے جہاں کرونا سے ہلاکتوں کی تعداد صفر ہے۔

آئیں چین، ویتنام اور کیرالہ کے بارے میں کچھ حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیرالہ بھارت کی جنوبی مغربی ریاست ہے۔ اس ریاست میں ہندو مذہب کے پیروکار بستے ہیں۔ یہ پتھر کے مورتیوں کے بھگوان کو مانتے ہیں۔ اس ریاست میں شراب سرکاری طور پر جائز ہے، جوا خانے اور کلبز بھی موجود ہیں، پوری ریاست میں خواتین نہ برقعہ پہنتی ہیں نہ سر پر سکارف لینے کے پابندی ہیں۔ ڈانس ان کے مذہب اور ثقافت کا حصہ ہے۔

جبکہ چین بالکل لادین ملک ہے، یہ ریاست کسی مذہب کو تسلیم نہیں کرتی، ملک میں چرچز، مندروں اور مسجدوں پر مکمل پابندی ہے۔ مسلمان اکثریتی صوبے سنکیانگ میں پچھلے سال قرآن مجید کی امپورٹ کی اجازت دی گئی ہے، اسلام کی تبلیغ پر آج بھی پابندی ہے۔ بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ پورے ملک میں کوئی عورت سر پر دوپٹہ نہیں اوڈھتی ہے۔ چین میں عصمت فروشی پر پابندی ہے مگر دنیا میں سب سے زیادہ سیکس کے اڈے چین میں ہیں، پورے ملک میں مساج سنٹرز قائم ہیں جہاں مرد عورت کی مساج کرتا ہے اور عورت مرد کی۔

ڈانس اور میوزک ان کی تہذیب کا حصہ ہے۔ شراب اور جوا بھی لیگل ہے۔ چین میں سانپ، کتے، چمکادڈ، مینڈک، اور سنڈیاں تک کھائی جاتی ہے۔ وہاں اذان اور نماز پر بھی مکمل پابندی ہے لیکن چین نے ان تمام گناہوں اور بے حیائی کے باوجود دنیا میں سب سے پہلے کرونا پر قابو پالیا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے اگر عذاب، بے حیائی، فحاشی، اور گناہوں سے آتے تو اس وقت چین کو نیست ونابود ہونا چاہیے تھا۔

آئیں اب حیا اور ایمان پر کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ سعودی عرب، ایران، شام، عراق اور ترکی مسلمانوں کے مقدس ملک ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں پردہ لازم ہے، شراب اور زنا پر مکمل پابندی ہے اور ان دونوں ملکوں میں ناچ گانے کی محفلیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دونوں مملک میں سرکاری سطح پر پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرائی جاتی یے۔ لیکن کرونا نے ان ممالک کا کیا حشر کریا ہے جو پوری دنیا کے سامنے ہے۔

آپ شام، عراق اور ترکی کے حالات بھی دیکھ لیجے یہ ملک ہر لحاظ سے ہم سے بہتر ہیں لیکن اس کے باوجود کرونا وائرس کا شکار ہوئے اور ابھی تک اس سے نکل نہیں پا رہے۔

سنٹرل ایشا میں واقع ایک اسلامی ملک تاجکستان کا احوال جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ یہ ملک کرونا سے ابھی تک بالکل محفوظ ہیں حلانکہ اس کی سرحد چین کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ یہ ملک بے حیائی، رقص، شراب نوشی اور جوا بازی میں بے حیا ملکوں سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس ملک نے اس حد تک شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے کہ علمائے کرام کے ذریعے فتوے حاصل کر کے عوام کو یہ کہہ دیا ہے کہ آپ قوت معدافعت مضبوط رکھنے کے لیے اس سال روزہ نہ رکھیں۔

کرونا وائرس اب بھی دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے ساتھ ہی یہ بات کی جا رہی ہے کہ اس بیماری کا تعلق ہمارے اعمال اور گناہوں سے ہیں۔ اسے اللّٰہ کا عذاب اور ہماری گناہوں کی سزا قرار دیا جاتا ہے۔ ایک خاص طبقے کی طرف سے اس وبا کو پاکستان میں خواتین کے لباس سے جوڑا جاتا ہے۔ جب بھی پاکستان میں کسی برائی پر بات ہوتی ہے اس برائی کا الزام عورت کی لباس اور اعمال پر لگایا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں مختلف وبائیں آئی ہیں اور بہت زیادہ تعداد میں اموات ہوئی ہیں، اگر سو سال پہلے Spanish flue کا جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا میں پانچ کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ آج سے پچاس سال پہلے خسرے سے سالانہ تیس لاکھ لوگ مر جاتے تھے۔ اگر یہ وبا دنیا میں عورت، بے راہ روی، بے پردگی کی وجہ سے پھیلا ہوا ہے تو کیوں زائرین اور تبلیغی جماعت متاثر ہوئی ہے اور دنیا کے مذہبی مقامات آج بھی کیوں بند پڑے ہیں؟

پاکستان میں ڈاکٹرز، حکومت اور مذہبی راہنماؤں سے لاک ڈاؤن سخت کرنے اور مزید سخت سے سخت اقدامات اٹھانے کی تجاویز دے رہیں مگر دوسری جانب ایک حلقے کی جانب سے اس کو خدا کا عذاب ٹھہرا کے کبھی عورت کو مورد الزام ٹھہرایتے ہیں کبھی اعمال اور ایمان کی کمزوری کے فتوے جاری کر کے کرونا وائرس کو مزید پھلنے پھولنے دے رہے ہیں جو نہایت تشویشناک بات ہے۔ کالم کے شروع میں چین، ویتنام اور بھارت کی ریاست کیرالہ کا ذکر ہوا ہے ان کے ہاں دنیا کے تمام برائیاں پائی جاتی ہیں مگر کرونا وائرس پر قلیل مدت میں قابو پایا ہے۔

ہم مسلمان ہیں ہمارا عقیدہ ہے اگر صدق دل سے دعا مانگی جائیں تو ضرور اثر رکھتی ہے۔ اب کرونا کے ساتھ جنگ میں ہمیں دعا سے بھی زیادہ دوا کی اور ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کر کے احتیاطی تدابیر اختیار کر نے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments