عرفان خان کے لئے مغفرت کی دعا پر تنازع


عموماً میں متنازع فیہ موضوع میں الجھنے سے احتراز کرتا ہوں اس لئے کہ مد مقابل کو جواب دیتے ہوئے آپ تھک جائیں گے لیکن وہ مطمئن نہیں ہوں گے ان کی سوچ کی سوئی ایک جگہ اٹک گئی تو اٹک گئی۔ بس مرغے کی ایک ٹانگ!

فلم انڈسٹری کے معروف اداکار اور منفرد شناخت کی شخصیت عرفان خان کا 54 برس کی عمر میں آج پانچ رمضان المبارک کو ممبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یکم رمضان المبارک کو ان کی والدہ محترمہ سعیدہ بیگم کا انتقال ہوا تھا۔ اللہ دونوں ماں بیٹے کی مغفرت فرمائے آمین۔

میں سمجھتا تھا کہ مدارس دینیہ کے بعض نئے فارغین کی ہی یہ فطرت ثانیہ ہے کہ موقع بے موقع بال کی کھال نکال کر اپنی مخصوص کم ظرفی تنگ نظری اور متعصب ذہنیت کا تعارف کراتے رہتے ہیں۔ مگر آج یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ جماعت اسلامی اور ایس آئی او سے وابستہ بعض حضرات اس پر برہم ہیں کہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے عرفان خان جیسے شخص کے لیے مغفرت کی دعا کیوں کی گئی! ایک صاحب نے عرفان خان کے بعض بیانات کو بطور دلیل پیش کرنے کی کوشش کی۔

حالانکہ قربانی اور روزے کے متعلق عرفان خان نے اپنے بیان میں وضاحت کر دی تھی۔ دوسری بات یہ کہ اسلام کے بارے میں معلومات کی کمی کی وجہ سے، کہ جانور ذبح کرنے کے پیچھے محرک کیا ہے اور روزہ میں بھوکے پیاسے رہنے کے پیچھے مقصد کیا ہے، ۔ انہوں نے ایسی باتیں کیں بعد میں صحیح صورتحال سمجھانے پر وضاحت کر دی۔

تیسری بات یہ کہ ان کی مغفرت کا معاملہ ان کے اور اللہ کے بیچ کا ہے، اوروں کو ٹھیکیدار بننے کی ضرورت کیا ہے؟ اللہ نے خود کہا ہے :

ان اللہ لا یغفر أن یشرک بھ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء۔ یعنی شرک کے علاوہ اللہ بندے کی ہر غلطی (حقوق العباد نہیں ) کو معاف کر دے گا۔

چوتھی بات یہ ہے کہ صاحب آپ کو مرحوم عرفان خان کے قربانی اور روزے کے ڈاییلاگ آپ کو یاد رہے مگر یہ احادیث آپ نے نظر انداز کیا :
اذکروا محاسن موتاکم۔
اذکروا موتاکم بالخیر۔

یعنی مرنے والوں کو ان کی خوبیوں کے ساتھ یاد کرو۔ انہوں نے جو اپنی زندگی میں اچھے کام کیے اس کا تذکرہ کیا کرو۔

یہی طریقہ پوری دنیا میں رائج ہے کہ دشمن بھی تعزیت کے لئے گھر آتا ہے اور مرنے والے کی خامیاں نظر انداز کرتے ہوئے خوبیوں کا ذکر کرتا ہے۔

وہ مسلمان شخص تھا اس کے لئے مغفرت اور اس کے لواحقین کے لئے صبر کی دعا کرنا اس کا حق ہے۔

پانچویں بات یہ کہ بندے کی موت رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہوئی۔ اس مہینے میں مرنے والوں کے لئے اللہ کی خصوصی رحمت و مغفرت کی توقع رکھنا چاہیے۔ اور اخیر میں ایک اور بات وہ یہ کہ بندہ دو ڈھائی سال نادر مہلک مرض مبتلا تھا اور اسے اپنے ماضی حال مستقبل کا خوب احساس ہو رہا تھا اس لیے حسن ظن سے کام لینا چاہیے کہ نہ جانے کن اوقات میں بندے نے توبہ کر کے اللہ سے معافی مانگی ہوگی۔ اور یہ بھی کہ اس کی بیماری ایسی تھی کہ کہا جائے ”طہورا انشاءاللہ“ کہ انشاء اللہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ تھی۔

میں اپنے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث سامنے رکھتا ہوں جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے اس شخص کا سینہ چاک کرکے دیکھا تھا کہ اس کے دل میں ایمان تھا یا نہیں؟ دوسری بات یہ کہ جنت یا جہنم کا ٹکٹ بانٹنے کا ٹھیکہ کسی کو نہیں ملا ہے یہ بندہ اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کل قیامت کے روز ہم میں سے کسی سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کون شخص جنتی یا جہنمی تھا۔

ہم میں سے ہر شخص سے اس کے اپنے اچھے اور برے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا اور اسی کے مطابق جزا اور سزا ملے گا ”و من یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرة شرا یرہ“ یعنی ذرہ برابر بھی کسی نے نیکی کی ہوگی اس کا اجر اسے ملے گا اسی طرح ذرہ برابر غلط کام کیا ہوگا اس کی سزا ملے گی ( قرآن) دوسری آیت : لا یزر وازرة وزر أخرى یعنی کوئی بھی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ان تمام آیات اور احادیث کی روشنی میں کتنی بری بات ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرنے کی بجائے دوسروں کے اعمال کا احتساب کرتے رہتے ہیں۔

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments