اعتماد کا قتل


سنتے ہیں کہ زمانہ ماقبل تاریخ میں مادرسری نظام ہوا کرتا تھا کہ جس میں عورت حکمراں تھی اور مرد محکوم۔ ہوتا ہوگا، جو زمانہ ریکارڈ پر ہی نہیں اس کے بارے جو جی میں آئے کہتے رہئے، مگر معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ مرد کا ہر روپ جبر سے عبارت ہے۔ خاوند، باپ، بھائی سب کے سب استحصالی اور مفاد پرست۔ ان کے استحصال کا سب سے بڑا نشانہ ہے عورت۔ زور زبردستی سے، جذبات کے بل پر بلیک میل کر کے، رشتوں کے لئے عورت کے دل میں موجود مامتا کے جذبے کو برانگیخت کر کے ہر طرح سے استحصال کرتا ہے اور ظلم۔

آپ کو پتہ ہے نا، عورت کا اُتم روپ ماں کا ہے، بہن ہو، بیٹی ہو کہ بیوی، رشتوں کو نباہنے کے معاملے میں وہ ماں کا سا برتاؤ کرتی ہے۔ بے لوث اور بے غرض۔ تاہم جہاں ذکر انسانوں کا اور انسانی رویوں کا ہو تو کوئی بھی نتیجہ صد فی صد نہیں ہوتا، اکثریت کے رویوں کو سامنے رکھ کر نتائج مرتب ہوا کرتے ہیں۔ سبھی مرد ایک سے نہیں ہوتے اور نہ سبھی عورتیں مگر اکثریت۔ ذرا توجہ فرمائیے۔

”جب سورج لپیٹ دیا جائے گا، اور جب تارے بکھر جائیں گے، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی، اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے، اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے، اور جب جانیں (جسموں سے ) جوڑ دی جائیں گی، اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔“

کلام ہے حکیم و عدیل خالق کا، پارہ ہے تیسواں، سورة ہے التکویر اور یہ ترجمہ ہے پہلی نو آیات کا۔ جب جب پڑھتا ہوں روح کانپ جاتی ہے۔ سید مودودیؒ لکھتے ہیں ”اس آیت کے اندازِ بیاں میں ایسی شدید غضب ناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضب ناکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا“ ۔ گویا بیٹی کو زندہ گاڑنے والے اس بارگاہِ عظیم و کبیر میں ایسے قابلِ نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کرنا بھی گوارا نہ کیا جائے گا بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بے چاری کس جرم کی پاداش میں ماری گئی۔

امام عبدالرحمان دارمی سمرقندی ”سنن دارمی“ میں بتاتے ہیں کہ بارگاہِ نبوت میں ایک شخص حاضر تھا۔ اس نے عہدِ جاہلیت کا واقعہ بیان کیا ”یارسول اللہﷺ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی۔ ایک روز میں نے اسے بلایا اور ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی، ہائے ابا۔

ہائے ابا“ ۔ یہ روداد سن کر رسول اللہﷺ کی چشم ہائے اطہر سے آبِ نمکیں جاری ہوا۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا ”اے شخص تونے حضورﷺ کو غمگین کردیا“ ۔ آپﷺ نے فرمایا ”اِسے مت روکو، جس چیز کا اِسے سخت احساس ہے، اُس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو“ ۔ پھر آپ نے اس شخص سے فرمایا ”اپنا قصہ پھر بیان کر“ ۔ اس نے دوبارہ بیان کیا تو پیکرِ اطہر میں سمائی ہوئی دو جہانوں کی رحمت یوں ٹوٹ کے آنکھوں سے برسی کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ فرمایا ”جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا، اللہ نے (ایمان کے بدلے ) اسے معاف کردیا، اب نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر“ ۔

یہ آیت اور یہ واقعہ جب بھی پڑھتا ہوں آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگتے ہیں کہ چشمِ فلک نے کیا کیا نظارے دیکھے ہیں، پھر خیال آتا ہے کہ یہ رسم قبیح اب کون سا ختم ہوگئی ہے، کہیں کہیں اب بھی جاری ہے بس اک ذرا صورت اور شکل بدل گئی ہے۔ بیٹیوں کے استحصال کی بے شمار صورتیں اس سماج کے روز مرہ کا حصہ ہیں۔ اپنے ایک جاننے والے خاندان کی مثال یاد آتی ہے۔ خاندان کے سربراہ کثیرالعیال تھے۔ دو صاحب زادیوں کو اپنے ہاتھوں بیاہا، تیسری نے یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری لی تھی کہ سربراہِ کنبہ وفات پاگئے۔

باقی اولاد ابھی چھوٹی اور زیر تعلیم تھی۔ چناں چہ اس تیسرے نمبر والی صاحب زادی نے نوکری شروع کردی کہ گھر کی کفالت کرسکے۔ کنبہ بڑا تھا سو، دو دو نوکریاں کیں۔ سویرے ایک کالج میں پڑھاتی تو شام کو اکیڈمی میں۔ جوں توں گھر کی گاڑی چلنے لگی۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا۔ ذمہ داریوں کی فہرست اس قدر طویل تھی کہ رفتہ رفتہ سر میں چاندی جھلکنے لگی اور کہیں رشتہ نہ ہوسکا۔ یہ نہیں کہ کوئی پیغام نہ آیا، کئی رشتے آئے مگر بیوہ والدہ نے اس خوف سے کہ اگر یہ پرائے گھر چلی گئی تو گھر کا خرچ کیسے اور کیونکر چلے گا، مختلف حیلے بہانے سے ٹالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

بیٹے کام سے لگتے گئے اور اپنی اپنی زندگی کی راہیں بیوہ ماں اور گھر سے الگ کرتے گئے، کسی نے گھر کاخیال کیا نہ بہن کا۔ وہ تیسرے نمبر والی بیٹی اب گھر کی گاڑی کو دھکا دیتے دیتے چالیس کا سن پار کر چکی ہے اور بے شمار جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار۔ اب کوئی رشتہ بھی اس طرف رخ نہیں کرتا۔ بیٹی کے دل میں اپنے خاندان کے لئے جو اخلاص ہوتا ہے، اس کی بنیاد پر بلیک میل کر کے ماں اور بہن بھائیوں نے اپنی غرض کے پیڑ کو پانی دیا اور خوب سینچا مگر ایک بیٹی جیتے جی حسرت کا مزار بن گئی۔

ملتان سے دور ایک قصبہ ہے، وہاں کی ایک بیٹی، اس کالم نگار کی دیرینہ قاری ہے اور کئی برس سے رابطے میں۔ وہ بھی اللہ نہ کرے ایسی ہی مثال بننے جارہی ہے۔ بہت سارے افراد پر مشتمل گھرانہ ہے اور والد کا کوئی روزگار نہیں۔ بڑے بیٹے برسرِروزگار اور اپنے اپنے گھروں میں ہیں، ادھر کی خبر کوئی نہیں لیتا۔ چھوٹی بہنیں بیاہی جاچکی ہیں مگر یہ چوں کہ سرکاری نوکری سے وابستہ ہیں، شام کو بھی گھر میں مصروف رہ کر آمدن کا باعث ہیں، سو ابھی تک شادی سے محروم۔

گھر کے اخراجات اور بھائیوں کی پڑھائی ان کے دم قدم سے ہے۔ اُدھر ماں رشتے میں رکاوٹ تھی اِدھر باپ۔ والدہ کی کوششوں سے رشتے آتے ہیں کہ ماں بیٹی کو اپنے گھر کا دیکھنے کو بے قرار ہیں مگر والد صاحب آڑے آجاتے ہیں۔ پینتیس کا سِن لگا ہے اور شادی کی عمر والی ڈور رفتہ رفتہ ہاتھ سے چھوٹتی جارہی ہے مگر والد فرما تے ہیں کہ میری شہزادی بیٹی کے جوڑ کا کوئی رشتہ آئے تو ہاں کروں۔ یہ بیٹی اسی پر پھولے نہیں سماتی کہ اس کے والد کو کس قدر خیال ہے اس کا۔

بیٹی ہے نا، نہیں جانتی کہ اس کی اصل دشمن اس کی کمائی ہے۔ اس کمائی سے چھوٹے بھائیوں کی زندگی بن رہی ہے۔ جب تک وہ کام سے لگ کے بڑے بھائیوں کی طرح گھر سے پیٹھ نہیں موڑ جاتے اِس کی شادی نہیں ہونے دی جائے گی۔ اسے یہی کہہ کہہ کر پھلائے رکھا جائے گا کہ اس کے لئے جس آئیڈیل کی تلاش ہے وہ مِل کے نہیں دے رہا۔ خدا نہ کردہ اسی چکر میں وہ حسرت کا مزار بن جائے گی۔

یہ اعتماد کا قتل ہے، اس بھروسے کا خون جو بیٹیاں والدین پر رکھتی ہیں۔ اندھا، بے سوچا سمجھا اعتماد کہ اگر میری ذات کا کوئی محافظ ہے تو بس میرا باپ۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ باپ سے بڑا محافظ کوئی نہیں ہوتا مگر آج بھی ایسے باپ موجود ہیں اور شاید اکثریت میں جن کی ترجیح بیٹی کے مقابلے میں بیٹا ہوتا ہے۔ آپ بتائیے رسول کریمﷺ کو اپنے ظلم کہ کہانی سنانے والے اُس زمانہ جاہلیت کے باپ اور اِس باپ میں کیا فرق ہے۔ اُس نے تو کنوئیں میں دھکا دے کر ایک ہی دفعہ کی تکلیف دے کر بیٹی کی جان چھڑوادی۔ یہ تو زندگی بھر کی اذیت بیٹی کے نام لکھ رہا ہے۔ وہ جان کا قاتل تھا، یہ اعتماد کا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اعتماد کا قتل، جان کے قتل سے زیادہ ہول ناک ہے۔ ###


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments