اقبال مسیح سے اسلم احسن تک


بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہیں۔۔۔ جی ہاں بہت ہی تلخ ہیں لیکن آج کے دن کے تو وہ ہیرو ہیں نا؟ آج ہم ان کی شان میں تقریریں بھی کریں گے، نغمے بھی گایں گے اور اچھے اچھے وعدے بھی کریں گے۔ وہ ہیرو ان سب سے بے نیاز اپنی روزی کی فکر میں یاس میں ڈوبا ہوا یہ سوچ رہا ہو گا کہ کمبخت آج پھر چھٹی ہے۔ دہاڑی ماری گئی۔

مزدور کے عالمی دن پر یاد آیا۔ کسی کو یاد ہے ایک دبلا پتلا کمزور سا لڑکا اقبال مسیح؟ مرید کے میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کو چار سال کی عمر میں والدین نے قالین بننے والے کارخانے میں ملازم رکھوا دیا اور اس کے بدلے میں 6000 روپے قرض لیے۔ قالین بافی کے لیئے نازک ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیئے کم سن بچوں سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ یہ چار سالہ بچہ ہفتے کے ساتوں دن، روز کے بارہ گھنٹے کام کرتا۔ تیس منٹ کا وقفہ ملتا اور ہر دن کی مزدوری پندرہ روپے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے آپ کا چار سالہ بچہ ایسی زندگی گذارے تو کیسا لگے؟ ظالم قرضہ پھر بھی نہ اترا۔ فیکڑی میں اور بھی بچے تھے اور آخر کو وہ بچے ہی تھے وہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔ تو پھر انہیں زنجیروں سے باندھا جانے لگا۔ اقبال مسیح کو پتا چلا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے قرضے کے بدلے مشقت پر پابندی لگا دی تو وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔ اس نے شاید یہ بھی سن رکھا تھا کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔ تو پولیس نے اسے بحفاظت واپس فیکٹری کے مالک کے حوالے کردیا۔ ظاہر اب اسے گستاخی کی سزا تو ملنی تھی اسے الٹا لٹکا کر اس پر تشدد کیا گیا۔ اقبال موقع ملتے ہی پھر فرار ہو گیا اور ایک رفاہی ادارے میں پہنچ گیا۔ اس ادارے کا ایک اسکول بھی تھا جہاں اقبال نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس ادارے نے بچہ مزدوری کے خلاف کام کرنے والی تنظیم سے رابطہ کیا اور یوں اقبال کو رہائی ملی اور اپنے ساتھ اس نے کئی ہزار دوسرے بچوں کو بھی اس غلامی سے نجات دلائی۔

ننھے منے اقبال کے بارے میں دنیا کو بھی خبر ہو گئی۔ اور اسکی ہمت کو سراہا جانے لگا۔ اسے ایوارڈز ملے، اسکالرشپ ملی، کالج کی سطح تک مفت تعلیم کی پیشکش ہوئی۔ اسے امریکہ اور سوئڈن میں بلایا گیا جہان اس نے لوگوں سے خطاب بھی کیا۔ یہ بارہ سالہ کمزور لڑکا جو اپنی عمر سے بھی چھوٹا لگتا تھا دینا میں اپنا نام پیدا کر رہا تھا۔ وہ پڑھ لکھ کر وکیل بننا چاہتا تھا تاکہ مظلوموں کی آواز بن سکے۔ ملک سے باہر اسے زندگی میں بھی سرہا گیا اور مرنے کے بعد بھی کئی ایوارڈز ملے۔

1995ء میں جب وہ تیرہ سال کا تھا اور بوسٹن (امریکہ) سے ایک ایوارڈ لے کر آیا تھا اور شاید اپنے بچپن کے کھوئے ہوئے دنوں کی یاد میں دوستوں کے ساتھ سائیکل چلا رہا تھا اسے گولیاں مار دی گیں۔ وہ جان سے گیا۔ اس چھوٹے سے بچے کو اپنے حق کی آواز اٹھانے کی سزا ملی۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی پولیس اس کے قاتلوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن یہ جاننا اتنا مشکل تو نہیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

پاکستانی تو شاید اس ہیرو کو بھلا چکے ہیں لیکن دنیا نے اسے یاد رکھا۔

اقبال کی جدوجہد سے متاثر ہو کر کینیڈا میں ایک رفاہی تنظیم ” فری دا چلڈرن” وجود میں آئی۔

امریکہ کے ایک اسکول میں جب اقبال کی وفات کی خبر سنی تو بچوں نے مل کر پیسے جمع کیے اور پاکستان میں ایک اسکول بنوایا۔ ایک انگریز نے اقبال پر کتاب لکھی۔ اسپین اور جنوبی امریکہ میں ہر سال 16 اپریل جو اقبال کی وفات کا دن ہے چاِلڈ لیبر کے خلاف منانے کا فیصلہ کیا۔ اٹلی میں بھی اس کے نام پر اسکول بنے۔ 2009 میں امریکی کانگریس نے اقبال مسیح کے نام پر مسیح ایوارڈ شروع کیا جو چائلڈ لیبر کے خلاف کام کرنے والوں کو دیا جائے گا۔ 2014 میں جب بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو بچوں کے لیئے کام کرنے پر نوبل نعام دیا گیا تو انہون نے بھی اپنی تقریر میں اقبال مسیح کا ذکر کیا۔ 2016 میں اٹلی کے شہر سسلی میں ایک رگبی ٹورنامنٹ بھی اقبال کی یاد میں کرایا گیا۔

پتہ نہیں پاکستانیوں نے اقبال مسیح کی یاد میں کچھ کیا یا نہیں۔ چلیے کچھ بھی نہ کیجئے اسے یاد تو رکھیے۔ یہ سارے ایوارڈز اور انعمات اس کے کچھ کام نہ آئے۔ وہ پاکستان میں ناقدری کا شکار ہو گیا۔ سوچتی ہوں اگر اقبال مسیح امریکہ میں ہی رک جاتا یا سویڈن میں سیاسی پناہ لے لیتا تو آج زندہ بھی ہوتا اور ابھر کر سامنے آتا۔ ملالہ یوسفزئی کی طرح شاید اسے امن کا نوبل انعام بھی ملتا اور ایک شاندار درخشاں مستقبل بھی۔ سولہ اپریل کو اس کی برسی آئی اور خاموشی سے گذر بھی گئی۔ کہیں کوئی شمع جلی؟ کسی نے اس کی یاد میں کوئی گیت گایا؟ اسکول کے بچوں کو اس کے بارے میں بتایا گیا؟ وہ بچے جو اقبال مسیح کی بدولت آزاد ہوئے وہ کہاں ہیں؟ کیا ان کی زندگی بدل گئی؟ کیا کبھی اکھٹے ہو کر اقبال کو یاد کرتے ہیں ؟ اس کے والدین اور بھائی بہن ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ اگر اقبال مسیح اس روز نہ مارا جاتا تو پھر کبھی بعد میں مارا جاتا۔ اس کا تو نام ہی اسے واجب القتل ٹھہراتا ہے۔

اقبال وطن واپس آیا۔ اسے کچھ اور کام بھی کرنے تھے۔ اپنے جیسے ہزاروں بچوں کو بچانا تھا۔ پر اسے مہلت نہ ملی۔

اب لگے ہاتھوں ایک اور پاکستانی مزدور کی بات سنیے۔

 1970ناروے میں جب تیل نکل آیا اور انڈسٹری نے ترقی کی تو یہاں افرادی قوت کی شدید ضرورت محسوس کی گئی۔ پاکستانی محنت کشوں نے بھی ادھر کا رخ کیا۔ پہلے گروپ میں آنے والوں میں ایک شخص اسلم احسن بھی تھے۔ محنتی آدمی تھے اور کچھ کرنے کی لگن بھی۔ ایک انڈسٹری میں کام کیا۔ ٹریڈ یونین میں فعال رہے۔ پھر سیاست میں بھی حصہ لیا۔ لیبر پارٹی کے ممبر بنے، الیکشن لڑا اور جیتے بھی۔ انہوں نے کتاب بھی لکھی اور ان پر ڈاکیومنٹری بھی بنی۔ کئی انعامات اور ایوارڈز بھی ملے۔

اسلم احسن نے تارکین وطن اور مقامی لوگوں میں نزدیکیاں پیدا کرنے کے لیئے عملی اقدام اٹھائے۔ ان کی خدمات کو ناروے نے یوں سراہا کہ اسلم احسن جو جوتے پہن کر ناروے آئے تھے، انہیں اوسلو کے میوزیم میں محفوظ کر لیا۔ یہ جوتے 41 برس تک اسلم احسن کے ہمراہ تھے۔ اب دوسروں کے لیے نقش قدم بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments