دو متحرک استاد اور لاک ڈاؤن


وبا کے یہ دن یو ں بھی مشکل ہیں لیکن بزرگو ں کے لیے تو اور بھی محال ہو گئے ہیں۔ میں نے لفظ بزرگ پر قدرے محتاط ہو کر سو چا کیو نکہ جن کا ذکر مجھے کرنا مقصود ہے وہ شاید عمر کے اعتبار سے تو بزرگ ہو ں لیکن زندگی کی امنگیں اور توانائیاں ان میں نو جو انوں سے بھی زیادہ ہیں۔ جن میں ایک نام سر احمد سلیم صاحب کا ہے، دوسرا ڈاکٹر انوار احمد صاحب کا ہے۔ احمد سلیم صاحب جن کے دو ہی مشاغل ہیں لکھنا پڑھنا اور کتابیں جمع کرنا، مگر اس کے ساتھ ان کی اگر کو ئی تفریح ہے تو وہ چہل قدمی کرنا ہے۔

اگرچہ اس شوق کی قیمت وہ با رہا ادا کر چکے ہیں مگر پھر بھی ان کے لیے ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا میرے تجربے کے مطابق محال ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ کیو نکہ واک کے دوران دو بار چکرا کر گرنے کے با وجود ووہ اپنا معمول بدلنے پر تیا ر نہیں تھے۔ مجھے لاک ڈاؤن میں ان کے احساسات کا اندازہ ان کے لہجے کی تلخی، یکسانیت سے بیزاری اور کئی حکو متی پالیسیو ں پر تیز و تند تنقید سے ہو تا رہا ہے۔ کیو نکہ جب بھی ان سے بات ہو ئی وہ کڑی کمان کی طرح نظر آئے۔

اپنی پچھتر سالہ زندگی میں پہلی بار ایک وائرس کے سامنے شکست ماننے پر ایک ایک انقلابی ہر گز تیار نہیں مگر حالات کے آگے بسا اوقات کو ئی تدبیر نہیں چلتی۔ ان کا لور ٹرانسپلانٹ ہوا تو وہ تب بھی اسی طرح متحرک رہے جیسے وہ اس سے پہلے تندرست و توانا تھے۔ وہ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے جسمانی کی بجائے ذہنی توانائیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ انہو ں نے سٹڈی ٹیبل پر بنے کتابوں کے دوطرفہ میناروں کے درمیان سے جھانکتے ہو ئے کہا ”بیماری کو خود پر سوار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خو د اس پر سوار ہو جا نا چاہیے“ مگر سر! اب کے بات مشکل ہی لگتی ہے کیو نکہ پو ری دنیا اس وائرس پر سوار نہیں ہو پا رہی تو۔ میں نے من ہی میں سوچا۔

دوسرا کردار بہت محترم استاد ڈاکٹر انوار احمد کا ہے جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے باوجوداپنی ذہنی توانائیوں کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ فعال ہو ں گے۔ ڈاکٹر صاحب ملتان کی روح رواں شخصیت ہیں۔ اگرچہ ملتان کا ذکر آتے ہی صوفیا اور ان کے آستانو ں کا نقش ذہن میں فوری طور پر ابھرتا ہے۔ اسی نسبت سے ڈاکٹر انوار احمد کے دوستو ں اور شاگردو ں کا وسیع حلقہ دیکھو ں تو ان کی الفت میں اسیر مریدوں کے چہرے نظر میں گھومنے لگتے ہیں۔

جن کے درمیان اپنی روشن آنکھو ں سے سب کے باطن کا حال پڑھتے ہو ئے الگ الگ نسخہ یا تعویز عطا کرتے ہیں، جن کا متن اکثر سرزنش پر مبنی ہو تا ہے۔ ان کی فطرت میں جہا ں سادگی اور محبت ہے وہیں ایک نمایاں وصف ان کا ہمہ وقت مصروف ہو نا بھی ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی بے حد مصروف تھے۔ ان کے دفتر کی میز پر چاہے اور ان چاہے مہمان کے عین سامنے ایک تختی دھری نظر آتی تھی۔ جس پر جلی حروف میں لکھا ہو تا تھا، ”اپنے قیام اور کلام کو مختصر کریں“ ۔

ہم جیسے مریدو ں نے ریٹائر منٹ کے بعد ان کے دروازے پر دستک دی تو ان کے گھر کی میز پر لکھی ہو ئی ایک اور تختی ہمارا منہ چڑھا رہی تھی کہ ”اب مجھے باقی ماندہ زندگی میں تو کچھ کام کرنے دیں“ ۔

لیکن اس وائرس کو کون سی تختی دکھائیں، یہ سوچ کر ہی ایک شرارتی شاگرد کی مسکراہٹ میرے ہونٹوں اور آنکھوں میں دھمال ڈال ڈالنے لگی۔

اسی سوال کا جواب لینے کے لیے ان کو کال کیا تو انہو ں نے لاک ڈاؤن سے بیزار ہو نے کی بجا ئے اپنی مصروفیات کی ایک طویل فہرست بتا ئی جس میں ان کا ملتان سے شائع ہو نا جریدہ ”پیلھوں“ کی اشاعت، ابن حنیف کی شخصیت و فن پر کام اورافسانے کی تنقید مزید پر ایک کتاب اور اس طرح کی کئی ادبی سرگرمیوں کی فہرست سنا ڈالی۔
ان کا جواب سننے کے بعد میں نے لاک ڈاؤن کے خیال سے ما تھے پر چڑھی تیوری کو ہٹا کر اپنے نامکمل مسودوں کی طرف رجو ع کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments