بزرگ، لڑکی اور لٹیرا


جون کی ایک گرم دن کی دوپہرمیں مسافر بس سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ گرمی اور لو سے بچنے کے لئے مسافر ہرممکن کوشش کر رہے تھے۔ اچانک ڈرائیور نے بریک لگایا۔ بس ایک زوردار جھٹکے سے رکی۔ گرمی سے پریشان کچھ مسافر ہڑبڑا گئے اور کچھ نے چلاتے ہوئے ڈرائیور کو برا بھلا بھی کہہ ڈالا۔

ڈرائیور نے مسافروں کو جواب دیے بغیر بس کو ریورس کیا اور پیچھے جا کر رکا۔ لوگ کھڑی سے باہرجھانکنے لگے۔ سڑک کے کنارے لڑکی اور بوڑھا کھڑے تھے۔

دونوں بس میں سوار ہوگئے۔ لڑکی کی عمر بیس۔ بائیس سال تھی اور وہ رو رہی تھی، ادھیڑ عمر شخص اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دونوں کے بس میں سوار ہوتے ہی مسافر خاموش ہوگئے۔ اور انہیں دیکھنے لگے۔ اور دونوں نئے مسافر ایک ساتھ بیٹھ گئے۔

لڑکی مسلسل روئے جا رہی تھی اور بوڑھا اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بس کے مسافروں میں چمے گوئیاں شروع ہوگئیں۔

”کیا ہوا؟ یہ کون ہیں؟ لڑکی کیوں رو رہی ہے؟“
مسافر یہ سوچ رہے تھے اور کنڈیکٹر نے آکر بوڑھے سے کرایہ مانگا۔
بوڑھے نے اپنا اور لڑکی کا کرایہ ادا کیا اور کنڈیکٹر چلا گیا۔
بوڑھا لڑکی کو چپ کرانے کی کوشش میں مصروف تھا۔

بوڑھے سے ایک مسافر نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا:
”چاچا کیا بات ہے۔ ( لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہ کیوں رو رہی ہے۔ کیا ہوا ہے اسے؟“

بوڑھا کہنے لگا ”یہ میری پوتی ہے۔ شوہر نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے کر ہم کو گاؤں سے نکال دیا ہے۔“ بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھی۔

” ہم حیدرآباد کے رہنے والے ہیں، میری پوتی اور اس کا شوہر دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور لڑکے والوں کی رویے کی وجہ سے میری پوتی دلبرداشتہ ہوگئی ہے۔“

بوڑھا ابھی اپنی بات مکمل نہیں کر پایا تھا کہ لڑکی بول پڑی:
” میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتے، جب جینے اور مرنے کی قسمیں کھانے والے نے مجھے چھوڑ دیا۔ اب میرے جینے کا کیا فائدہ، مجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے“

یہ کہ کر لڑکی کھڑی ہوگئی اور دروازے کی طرف لپکی، لیکن اسے کچھ مسافروں نے پکڑ کر بٹھا دیا۔ تازہ مناظر کے بعد سب مسافروں کے چہروں پر حیرانی و پریشانی کے ملے جلے آثار تھے۔ سب لڑکی اور بوڑھے کے بارے میں سوچتے رہے۔

لڑکی کی اس حرکت پر کچھ خواتین اپنی نشست چھوڑ کر اس کے پاس آ گئیں اور اسے سمجھانے لگیں! جبکہ مرد مسافروں نے غمزدہ بوڑھے کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے حوصلہ دینے لگے۔

ڈرائیور اور کنڈیکٹر تازہ حالات سے بے نیاز اپنی نظریں سڑک پرگاڑے ہوئے تھے اور بس کے پہیے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔

ڈرائیورکو کچھ فاصلے پر کسی مسافر کا اٹھتا ہاتھ دکھائے دیا، جو بس کے روکنے کا اشارہ تھا۔ ڈرائیور نے کنڈیکٹر کی طرف دیکھا اور پھر بس کی رفتار کم ہونے لگی۔

گاڑی رکی تو ایک باریش شخص جس کی عمر پچاس کے آس پاس تھی، اپنی پوٹلی کے ہمراہ بس میں سوار ہوا۔
بس پھر چل پڑی، باریش شخص سیٹ پر بیٹھ گیا۔

مسافروں کی آپس میں گفتگو سن کر باریش مسافر نے ماجرا جانا۔ جس پر اس نے بھی بوڑھے کو تسلی دی اور پھر اس نے کہا ”رشتے آسمان پر بنتے ہیں، کسی پر اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اس پر سو دروازے کھل جاتے ہیں۔ ہر بات میں اوپر والے کی ضرور کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اس میں بھی ضرور کوئی نہ کوئی اچھائی ہوگی۔“

بوڑھا کہنے لگا ”میری زندگی کا پتا نہیں، میں کتنے دن زندہ رہوں گا۔ کچھ معلوم نہیں، میں اپنی پوتی کو کس کے سپرد کروں، کہاں جاؤں، کیا کروں؟“

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہنے لگا ”اگر میں مر گیا تو میری بچی کا کیا ہوگا!“ یہ کہتے کہتے اس کے آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔

باریش شخص نے بوڑھے کو سے لگاتے ہوئے کہا ”آپ پریشان نہ ہوں، سب ٹھک ہوگا، اوپر والا ضرورکوئی راستہ بنائے گا۔“
بس کے سبھی مسافر لڑکی اور بوڑھے کے حالت پر باتیں کرنے اور ان سے ہمدردی جتانے لگے۔

لیکن ڈرائیور اور کنڈیکٹران سب باتوں سے لاتعلق ہی رہے۔ ان کی سوچ میں تو فقط مسافروں کو بس میں سوار کرانا اور اتارنا تھا۔

بس ایک بار پھر رکی اور ایک نوجوان سوار ہوا۔ شلوار قمیض پہنے نوجوان منچلا لگ رہا تھا۔ بس میں نشست خالی نہ ہونے پر اسے کھڑا ہونا پڑا۔

بس پھر چل پڑی، مسافروں کا موضوع ابھی تک لڑکی اور بوڑھا ہی تھا۔ لڑکی کو روتا دیکھ کر بوڑھے کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔ اور وہ روتے روتے بیہوش ہوگیا۔ باریش شخص اسے پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا۔

بوڑھے کے بیہوش ہونے پر بس کے سبھی مسافر ڈر گئے۔ کچھ لوگوں نے کھڑے ہوکر بس کو رکوا دیا۔
بوڑھا ہوش میں آیا تو بس پھر چل پڑی، باریش شخص بوڑھے کی حالت دیکھ کر تلملا اٹھا۔

” کیا کوئی بس میں ایسا لڑکا نہیں جو اس لڑکی کا ہاتھ تھامے اور اس بوڑھے کو اس ذمہ داری سے آزاد کرے، تاکہ یہ اپنی زندگی کے باقی ایام سکون سے گزار سکے۔ یہ خیر کا کام ہے جس کاقیامت کے دن اجرملے گا۔“

باریش شخص نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”یتیم اور بے سہارا لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا حکم دیا گیاہے، بھری بس میں کوئی ہے ایسا مرد جو اس لڑکی کا عمر بھر ساتھ نبھائے“۔

باریش شخص کی باتیں جاری تھیں لیکن سب مسافر خاموش تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ مسافروں کے ہونٹ ہلنے لگے، ایک دوسرے سے باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیرپہلے جو لڑکی پر رحم کر رہے تھے انہیں اب لڑکی میں کھوٹ نظر آنے لگا، کردار بھی مشکوک ہوگیا اور سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔

یہ سرگوشیاں جاری تھیں کہ منچلا لڑکا بول پڑا ”میں شادی کرنے کو تیار ہوں! اگر لڑکی اور اس کے دادا کو اعتراض نہ ہو تو!“

یہ سن کر سب مسافر، لڑکی اور بوڑھا لڑکے کو دیکھنے لگے۔
” تم کون ہو؟“

باریش شخص نے لڑکے سے پوچھا ”میرا نام فضل ہے، میں حیدرآباد کا رہائشی ہوں، غیرشادی شدہ ہوں، سرکاری نوکری ہے، اس لڑکی کے حالات سن کر مجھے دکھ ہوا ہے۔ میرے دل نے مجھے کہا کہ میں اس سے شادی کروں۔“

فضل کی باتیں سن کر سب کے چہروں پر حیرانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات ابھر آئے۔
باریش شخص نے کہا ”کیا ہمیں اس کی بات مان لینے چاہیے؟“

ابھی وہ اپنی بات ختم نہیں کر پایا تھا کہ فضل بول پڑا ”میرا کوئی نہیں ہے، یہ مجھے جہاں کہیں گے وہاں رہوں گا، دھوکا نہیں دوں گا، میں اپنی بیوی کو سدا خوش رکھوں گا!“

فضل کی باتیں سن کر سب کو تسلی ہوگئی۔
باریش شخص لڑکی اور اس کے دادا سے مخاطب ہوا ” آپ کیا کہتے ہیں، یہ لڑکا سچ بول رہا ہے، اس کے باتوں میں سچائی ہے، آپ کو اگر یہ رشتہ منظور ہے تو ہم ابھی نکاح کرلیتے ہیں“۔

بوڑھا اپنے پگڑی سے آنسوں پونچھتے ہوئے بولا ”میری بچی سے پوچھیں اگر اسے اعتراض نہیں تو مجھے کیوں ہوگا!“

بوڑھے کی بات پر باریش شخص نے لڑکی سے پوچھا ”بیٹی کیا تم اس نوجوان کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہو!“

لڑکی کہنے لگی ”میرے دادا جو کہیں گے میں وہیں کروں گی“۔
پوتی کی بات سن کر بوڑھے نے کہا ”مجھے یہ رشتہ منظور ہے“۔
یہ سن کر باریش شخص نے کہا کہ ”وہ نکاح خواں ہے اور بس میں نکاح پڑھوائیں گے“۔

لڑکی اور لڑکے کو ایک سیٹ پر بٹھایا گیا بوڑھے سمیت بس کے چند مسافر گواہ کے طور پر جوڑے کے پاس آکربیٹھ گئے۔

نکاح کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا۔ سبھی مسافروں نے جوڑے اور بوڑھے کو مبارک باد دی۔ جس کے بعد باریش شخص نے اپنی پوٹلی سے مٹھائی کا ایک پیکٹ نکالا اور اسے نکاح کی خوشی میں دلہے کو دیتے ہوئے کہا ”باراتیوں کا منہ میٹھا کراؤ“

دلہا بس کو رکوا کر پیکٹ ہاتھ میں تھامے ایک ایک مسافر کے پاس گیا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے مٹھائی کھلانے لگا۔ مٹھائی کھاکر ہر شخص نے اسے مبارک باد دی۔

دلہے نے ڈرائیور، بس کنڈیکٹر سمیت تمام مسافروں کومٹھائی کھلائی۔ مٹھائی کھاتے ہی بس میں موجود تمام افراد بیہوش ہوگئے۔
مٹھائی نشہ آور تھی اور اسے صرف دلہا، دلہن، بوڑھے اور باریش شخص نے نہیں کھایا تھا۔

جب سب بیہوش ہوگئے تو دلہن نے خواتین مسافروں کے طلائی زیورات، نقدی اور دیگر سامان اتارا جبکہ دلہے، باریش شخص اور بوڑھے نے مرد مسافروں کا قیمتی سامان اور نقدی سمیٹا اور بس سے اتر کر فرار ہوگئے۔

دو گھنٹے بعد گشتی پولیس پہنچی تو مسافروں کو ہوش میں لائی۔ تب تک نوبیاہتا جوڑا، بوڑھا اور باریش شخص کہیں دور پہنچ چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments