اداکار عرفان خان کے لئے دعائے مغفرت پر تنازع


عرفان خان ایک شخص نہیں ایک طبقہ خیال ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کے لئے دعاء مغفرت پر جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا کہ بعض دینی شعائر کے بارے میں اس کے بیانات یا سوالات داعیین دین اسلام کو ان کے دعوتی اسلوب پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ ہم سب کو اور بالخصوص داعی الی اللہ کو بیمار سے نہیں بیماری سے دوری اختیار کرنا چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ آیا ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم ”ادعوا إلى ربک بالحکمة والموعظة الحسنة یعنی حکمت اور ناصحانہ انداز میں لوگوں کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دو“ کے مطابق کام کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم ان کی زبان ان کی سوچ ان کا ماحول ان کا انداز زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو دین کی دعوت دے رہے ہیں ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دے رہے ہیں یا عقل و نقل سے آراستہ لٹریچر ان تک پہنچا رہے ہیں؟ ظاہر اس پڑھے لکھے طبقہ کو پاپائے روم کی طرح فرمان جاری کرنا اور فقہی احکام ان پر مسلط کرنے سے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں ضد اور بغاوت جیسی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ ایک ڈیبیٹ میں وہ بار بار کہ رہا ہے کہ وہ سمجھنا چاہتا ہے۔

تقریباً ہر کلمہ گو مسلمان کے دل میں ایمان کی چنگاری باقی رہتی ہے چاہے وہ کسی بھی ماحول اور صحبت میں بود و باش اختیار کر لے وہ چنگاری اسے اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی طرف کہتی رہتی ہے۔ عرفان کا تعلق ایک قدامت پسند خاندان سے ہے جہاں فلموں میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بناء پر بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک ایسے گھرانے میں اس نے پرورش پائی جہاں کسی بھی درجہ میں دین سے وابستگی تھی۔

عرفان خان کہتا ہے قربانی سے عین قبل پیسوں کے زور پر بکرا خرید کر ذبح کرنا کیا قربانی ہے؟ قربانی تو اپنی کسی پیاری شے کو قربان کرنے کو کہتے ہیں نہ کہ چند ہزار خرچ کر کے بکرا ذبح کر کے اس کے گوشت کھانے کو! اس کے الفاظ کو نہ پکڑیں اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں : اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : لن ینال اللہ لحومھا و لا دماءھا ولکن ینالھ التقوى منکم یعنی اللہ کے پاس اس جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا اللہ کے پاس تو اس ذبح کے پیچھے تمہارے دل میں کیا ہے وہ پہنچتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أن اللہ لا ینظر إلى صورکم و لا إلى أموالکم ولکن ینظر إلى قلوبکم و اعمالکم یعنی اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ ”اب ذرا غور کریں قربانی کے جانور کے تعلق سے ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے۔ نام و نمود نمائش شاہ رخ بکرا دو لاکھ، سلمان بکرا ڈیڑھ لاکھ اسی طرح صدام بکرا اور اسامہ بکرا۔ محلے میں سب سے مہنگا بکرا فلاں کے یہاں آیا لوگوں تک یہ خبر پہنچ جائے غریبوں تک گوشت پہنچے یا نہ پہنچے یہ ثانوی درجہ کی بات ہے۔

جہاں تک عرفان کا یہ کہنا قربانی پیاری چیز کی ہونی چاہیے تو کیا یہ مستحب نہیں ہے کہ جانور کو پہلے سے لا کر اسے کھلائیں پلائیں اور مانوس کریں اس کے بعد یوم قربان میں اس کی قربانی دیں۔ میں نے تو اپنے بچوں کو روتے ہوئے دیکھا اس قدر انسیت ہو جاتی ہے کہ کسی قیمت اس کا ذبح ہونا گوارا نہیں کرتے۔ اس طرح ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ایک تو یہ کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جسے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری رکھنے کی ہدایت کی دوسری بات یہ کہ عید قربان کے روز قربانی کے گوشت سے غریبوں کے ساتھ مواخات کرنا ان کو بھی عید الاضحی کی خوشیوں میں شامل کرنا مقصد ہے۔

عرفان کا دوسرا سوال روزہ سے متعلق ہے کہ بھوکے پیاسے رہنے کا کیا حاصل ہے؟ تو یہ سوال تو میں بھی کرتا ہوں کہ بھائی جن چیزوں کو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دیا کھانا پینا بیوی کے ساتھ جنسی تعلق وغیرہ وہ سب آپ نے پندرہ گھنٹے تک روزہ کے نام پر چھوڑ دیا مگر جو رمضان و غیر رمضان ہر لمحہ حرام ہے جھوٹ دغابازی غیبت سود ملاوٹ غش وغیرہ وہ آپ نے نہیں چھوڑا تو اس بھوکے پیاسے رہنے کا حاصل کیا ہے؟ راتوں کو جگنے کا مقصد عبادت کرنا ہے توجہ الی اللہ ہے پچھلے گیارہ مہینے میں کیا کیا اس کا محاسبہ کرنا ہے اور جو نیک اعمال کیے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے اور جو گناہ ہوئے اس کے لئے سچی پکی توبہ کرنا ہے نہ کہ چہاریاری اور ٹی وی سیریل دیکھ کر سحری تک جاگنا اور سحری کھا کر فجر چھوڑ کر سوجانا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رب صائم لیس لہ من صیامہ إلا الجوع والعطش ورب قائم حظہ من قیامہ السھر یعنی بعض روزے دار ایسے ہوتے ہیں جن کے حصے میں صرف بھوک اور پیاس ہوتے ہیں (کوئی ثواب نہیں ) اور بعض راتوں کو جاگنے والے ایسے ہوتے جن کے حصے میں راتوں کو جاگنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا (یعنی ثواب نہیں ملتا)

داعیین اسلام کو عرفان، جو ایک شخص نہیں طبقہ خیال ہے، کے سوالات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ان کے شکوک وشبہات کے ازالہ کے لئے مناسب میکانزم ایجاد کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال اور اعتراض کی روح کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ مولوی صاحب کی بات حرف آخر ہے، جس نے سوال کیا سمجھنے کی کوشش کی وہ باغی ملحد اور خارج از اسلام۔ یہ جبہ و دستار کا رعب دکھا کر چپ کرانے کی روش اس طبقہ میں قابل قبول نہیں ہے اسی لئے دینی تعلیم یافتہ اور عصری تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments