شدت پسند اور محبت مافیا


اگر عالمی حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں انتہا پسندی اپنی انتہا کو چھوتی نظر آئے گی۔ اس میں علاقے نسل رنگ اور مذہب کی باقاعدہ تفریق بھی نظر آئے گی۔ ہر علاقے میں شدت پسند موجود ہے اور ایسی حرکات و سکنات میں ملوث ہے کہ مخالف گروہ کا جینا عذاب کیا ہوا۔ یہ شدت پسند اتنا چالاک اور مکار ہے کہ اپنے مخا لف کو بولنے اور اپنی صٖفائی کا موقع تک دینے کو تیار نہیں۔ اس کی کوئی دلیل اس کی کوئی فریاد اس کی کوئی آہنگ سننے کو راضی نہیں۔ الٹا یہ اسے اور زیادہ تنگ کر رہا ہے۔

دنیا بھر کے واقعات اور حالات کو جانچنے کی اور بھانپنے کی ایک ہلکی سی کوشش کریں اور حیرا ن ہوں کہ یہ شدت پسند کتنا مکار ہو چکا ہے۔ کتنا منظم اور مسلح ہو چکا ہے۔ یہ اتنا جابر اور ستم گر ہو چکا ہے کہ اپنے دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ اس سے ہزار سال کا بدلہ لے رہا ہے جو اس نے اسے تمدن سکھانے اور شعور بیدار کرنے میں صرف کیے ۔

چھٹی صدی عیسوی سے لے کر سولہویں صدی تک اپنی دن رات کی محنت شاقہ سے انسانیت کو پروان چڑھایا اور عالم کو زمانہ سیاہ سے نکال کر روشن خیالی کے دور میں لا کھڑا کیا۔ جب شدت پسند اتنی سی بات پر اپنے باشعور نوجوانوں کو کھولتے ہوئے تیل میں پھینک کر جلا دیتا تھا کہ اس نے یہ کیوں کہا کہ گھوڑے کے منہ کے دانتوں کو کتابوں سے ڈھونڈنے کی بجائے گھوڑے کا منہ کھول کر ہی دیکھ لیجیے۔ یا اپنے زمانے کے مشہور سائنس دانوں کو تہہ تیغ کر دیا کہ وہ روشن خیالی اور رواداری کی بات کرتے تھے۔

وہ ان تنگ نظر شدت پسندوں کی شدت پسندی کو شدت پسندی کہنا چاہتے تھے اور اپنی سوچ کو ان کے خوف سے آزاد کرنا چاہتے تھے مگر وائے افسوس کہ زندگی سے آزاد کر دیے گئے۔ آج وہی شدت پسند ان لاچار انسانوں کے در پے ہو چکا ہے جو دن کو دن اور رات کو رات کہا کرتے تھے۔ جنہوں نے انہی کو شعور دیا کہ تم بھی انسان ہو اور سوچ سکتے ہوں۔ جنہوں نے یہ جان فزا شعور بخشا کہ ہر بات کسی کی لکھی کتاب سے ہی سچ ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کائنات کے مالک خالق نے انسان کو جو شعور دیا ہے اس سے بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ شدت پسند اسے ہی مانتے آئے اور اپنے دل میں وہ بغض اور عناد پالی کہ آج اس کا سر عام اظہار کر رہا ہے۔

یہ اس انسان کو انتہا پسند اور شدت پسند اور دہشت گرد قرار دے رہا ہے جو ان باتوں کے ذہنی جسمانی شعوری اور لاشعوری طور پر خلاف ہے۔ اس کا مذہب ہی اسے امن کا درس دیتا ہے۔ یہ اسے شدت پسند کہتا ہے جس کی مقدس کتاب کو الہامی کتاب کو سر عام جلاتا ہے اس کی بے حرمتی کرتا ہے اور اگر وہ ایسی قبیح حرکت کی مزاحمت کرے تو شدت پسند کہلاتا ہے۔ یہ اسے شدت پسند اور دہشت گرد کہتا ہے جس کے پیارے نبی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے اور اگر یہ اسے ایسا کرنے سے بالجبر روکے تو اسے دہشت گرد گردانتا ہے۔ یہ اتنا چالاک شدت پسند ہے کہ خود شدت پسندی کی ساری حدیں عبور کر جاتا ہے، پہلے اسے بہلا پھسلا کر ایک راستے پر ڈال دیتا ہے اور پھر خود ہی اس راستے پر گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے ہی پیدا کیے ہوئے کارندے کو شدت پسند اور دہشت گرد قرار دے کے پوری دنیا کا رخ اس کی طرف موڑ لیتا ہے۔

جسے یہ شدت پسند انتہا پسند اور دہشت گرد کہہ رہا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا حال جاننے کی کوشش تو کریں۔ کبھی برما کے ان شدت پسندوں کو بھی دیکھیں جنہیں اس محبت مافیا نے سر عام جلا دیا گھروں سے نکال دیا اور پھر پناہ بھی نہ لینے دی۔ انہیں روہنگیا شدت پسند کہتے ہیں۔ پھر کشمیر کے شدت پسندوں کو دیکھیں جنہیں کئی ماہ سے گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے ان کے بچوں کے لئے دوائی نہیں ان کی عورتوں کے لئے پاک دامنی نہیں اور ان کے مردوں کے لئے زندہ رہنا منع ہے۔ یہ مجبور و محصور شدت پسند ہیں اس لئے کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ فلسطین کے شدت پسند دیکھ لیں جن پر امن پسند گولیاں برساتے ہیں اور وہ شدت پسند غلیل سے پتھر پھینکتے ہیں۔ ان غلیل والوں کو سبق سکھانے کے لئے پوری دنیا کے امن پسندوں اور جمہوریت پسندوں کا ایک ہی راگ ہے۔

یمن کے شدت پسندوں کا ذکر کریں یا شام کے مصر کے انتہا پسند وں کی بات کریں یا لیبیا کے۔ اسی طرح پورے افریقہ میں یہ شدت پسند موجود ہیں جو اپنی جان کی امان چاہتے ہیں مگر امن پسند انہیں کسی آنے والے خطرے کے پیش نظر ختم ہی کرنا چاہتے ہیں۔ یورپ کی تو بات ہی کیا ہے وہاں تو اتنے امن پسند لوگ ہیں کہ بس ان شدت پسندوں کے نبی کی توہین کر کے اور ان شدت پسندوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کر کے چیک کرتے ہیں کہ یہ کتنے شدت پسند ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments