صحافت کی کشت ویراں، صحافتی بالشتیے اور احسان احمد سحر



احسان احمد سحر صاحب ضلع بہاول پور کے حقیقی معنوں میں سینئر اور عامل صحافی ہیں۔ ہمارے والد بزرگوار نسیم صاحب کے ہم عصر اور ان کے دوست۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم ابھی تک ان سے ”روبرو“ شرف بازیابی سے محروم ہیں، البتہ ٹیلی فون پر تین یا چار مرتبہ ”دوبدو“ ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ غائبانہ نیاز مندی کی یہ کٹھالی جانے کب تک رواں رہے۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ابھی رات کے پچھلے پہر جب نیند ہماری آنکھوں کے گوشوں میں مسلسل جاگ رہی تھی اور ہم اختر شماری کے ذریعے رتجگے کے درد کا درماں کر رہے تھے۔ موبائل فون کی مترنم گھنٹی نے چونکا دیا۔ دیکھا تو واٹس ایپ نمبر پر سحر صاحب کے میسیجز آئے ہوئے تھے۔ کئی ماہ بعد ان کے اچانک آنے والے مسیجز نے ہمیں اچنبھے میں ڈال دیا۔ مزید دید گھمائی تو ”نوائے احمد پور شرقیہ“ کی پی ڈی ایف فائل اور مکمل اخبار کا محضر تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت آنگیں خوش گواریت نے آ لیا کہ اخبار کے عقبی صفحہ پر مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی صاحب کے حوالے سے ہماری ایک تحریر اشاعت پذیر تھی جو ہم نے گزشتہ روز ”نوائے اوچ“ میں پیش کی تھی۔ ہم نے شکریہ کا ایس ایم ایس بھیجا تو سحر صاحب نے جواب میں کچھ یوں گویا ہوئے کہ

Thanks so much. Miss your late father Rasool Bakhsh Nasim Sahib. May Allah rest him in Jannah.

جی چاہا کہ اس بہانے احسان احمد سحر صاحب کی بازآفرینی کی جائے۔ شاید کہ ذکر یار سے رتجگے کی بے قرار رتیل کو قرار آ جائے۔

تو صاحبو! ستر کی صبر آزما دہائی میں جب ملک کے کوچہ و بازار میں ہمارے ”محبوب“ جنرل کی ”اسلام پسندی“ کا طوطی بولتا تھا اور آمریت کی ”باوضو“ پچھل پیری اپنے چیچک زدہ چہرے پر مذہب کا غازہ تھوپ کر اپنی تمام تر پارسائی اور خود ساختہ خوبصورتی کے ساتھ اہل صحافت کی برہنہ پیٹھوں پر کوڑے برسا رہی تھی، اس وقت نسیم صاحب، مرزا منصور یاور صاحب، محمد اقبال چوغطہ صاحب اور احسان احمد سحر صاحب جیسے جید صحافی تحصیل احمد پور شرقیہ کی صحافی برادری کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لئے سب ڈویژنل یونین آف جرنلسٹس اور پریس کلب کی بنیادیں استوار کر رہے تھے۔

سحر صاحب کی شخصیت ہمارے لئے کچھ یوں بھی نوسٹیلجیک ہے کہ ہمارے ابا جی ان کا ذکر احترام اور محبت سے کرتے تھے، ہمارے بچپن میں کئی بار ایسا ہوا کہ جب ہم ڈاک خانہ سے ابو جی کی ڈاک لینے جاتے تو ہمارے ”پوسٹ بکس نمبر چار“ میں خطوط اور اخبارات و رسائل کے ڈھیر کے ساتھ ”نوائے احمد شرقیہ“ کے چند شمارے ضرور ہوتے جو سحر صاحب ازراہ محبت و مروت باقاعدگی کے ساتھ نسیم صاحب کی اور بھیجتے۔ نوے کی دہائی میں ہمارے ”نوائے اوچ“ اور ان کے ”نوائے احمد پور شرقیہ“ نے صحافتی افق پر ایک ساتھ ہی اڑان بھری۔

اپنے عہد کے شعور اور اجتماعی ذمہ داری کے طور پر احسان احمد سحر صاحب کا شخصی اور صحافتی پہلو فکر مندی کی صلیب اور درد کی سولی سے عبارت ہے۔ انہوں نے اپنی صحافت میں اپنے علاقے کے باسیوں کا دکھ بیان کیا، حکمرانوں کی چیرہ دستیاں بلاکم و کاست شائع کیں۔ اقتدار کی بالانشینی اور محروم لوگوں کی خاک نشینی کو دستاویز کیا۔

”تبدیلی“ کی اس نمود میں جبکہ ہمارے ملک میں صحافت کے زوال کا المیہ ٹھہر گیا ہے، چار دہائی قبل بھی تقدس مآب اہل صحافت ایک منقسم گروہ تھے لیکن خط تنصیف کے دونوں جانب قد آور لوگ تھے اور اختلافی بیانوں میں اخلاقی توانائی موجود تھی۔ آج کا دکھ یہ ہے کہ ہم سب بالشتیے ہو گئے ہیں اور ہمارے مقدمے کی اخلاقی قامت گھٹ گئی ہے۔ اس میں کیا شک کہ ہم نے صحافتی سرزمین پر بزرگوں کی کشت وکار پر چار حرف بھیجتے ہوئے قلمی اتائیوں اور گھس بیٹھیوں کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجے میں آج چہار سو پھیلا کشت ویراں صحافتی تاریخ کے زلزلہ پیما پر ڈوبتے ابھرتے ارتعاش کا عکس ہے۔ سو اس ترقی معکوس کے لاحاصل سفر میں درماندہ صحافی احسان احمد سحر جیسے ”شمع کشتہ“ کا وجود ہمارے لئے غنیمت ہے کہ جسے آنے والی نسلوں کو بلند کرداری کا استعارہ بنا کر سونپا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments