تاریخ کا سبق اور لوٹ کھسوٹ



اردو زبان کے الفاظ میں سب سے پہلے جو لفظ انگریزی زبان میں داخل ہوئے ان میں سے ایک ”لوٹ کھسوٹ“ تھا جسے انگریزی میں صرف ”Loot“ کہتے ہیں۔ آکسفورڈ کی انگریزی لغت کے مطابق اٹھارویں صدی سے پہلے شاید ہی کسی نے ہندوستان سے باہر یہ لفظ سنا ہو تاہم اس کے بعد تیزی سے یہ لفظ پورے برطانیہ میں عام ہو گیا۔

اسکی وجہ شہرت ایسٹ انڈیا کمپنی کی وہ لوٹ مار تھی جس نے مغل سلطنت کے خزانے خالی کر دیے۔ ایسا شاہکار مال غنیمت جو آج بھی انگلینڈ کے تاریخی قلعہ پووس میں مخلوق عالم کو دعوت نظارہ دے رہا ہے۔

انگلینڈ کے علاقے ویلش میں واقع پووس کا یہ قلعہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر ہندوستان سے لوٹی گئی دولت کے وہ نادر و نایاب نمونے موجود ہیں جو پاکستان یا بھارت تو کیا دنیا کے کسی بھی عجائب گھر میں نہیں۔ سونے سے بنے اور جوہرات سے مرصع شاہی حقّے اور خنجر، خون سے سرخ یاقوت کے پتھر اور انتہائی حسین سبز زمرد سے منقوش اشیاء کا جا بجا استعمال، خونخوار شیروں کے وہ سر جن کی آنکھوں میں نیلگوں نیلم اور زرد پکھراج جڑے ہوئے ہیں، ہاتھی دانت کے زیورات، مورتیاں اور زرہیں، کیا کچھ نہیں ہے یہاں پر۔ مگر یہاں کا سب سے قیمتی سرمایہ ایسا ہے جو آنکھوں کو خیرہ نہیں کرتا بلکہ دل کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔

یہ ایسا عظیم اور تاریخی ورثہ ہے جس کے چھن جانے کی کڑواہٹ اڑھائی سو سال گزرنے کے باوجود آج تک بر صغیر کے باسیوں کے دلوں میں موجود ہے۔

ان میں شامل ہے جنگ پلاسی میں نواب آف بنگال سراج الدولہ کی قبضہ شدہ شاہی بگھی اور عظیم ٹیپو سلطان کا شاہی خیمہ جو ان کی شہادت کے بعد حاصل کیا گیا۔

تاریخ دانوں کی بحث اپنی جگہ، کہ میر جعفر نے سراج الدولہ سے غداری کیوں کی یا میر صادق نے ٹیپو سلطان کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی بھارت کے شہر مرشدآباد میں سیاح میر جعفر اور میر صادق کی قبروں پر جب تھوکتے ہیں تو ان کے آٹھویں نسل کے پڑپوتے میر رضا علی خان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں۔

غدار تو کل بھی موجود تھے اور یہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی زبان میں اردو زبان کا لفظ ”نمک حرام“ داخل نہ ہو سکا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی بنگال کے نوابوں کی طرح سونے اور چاندی کو جمع کرنے میں مگن اپنے دشمن سے بے خبر تو نہیں؟ کیا ہم بحیثیت قوم اپنے دشمنوں سے آگاہ ہیں؟ کیا آج کی دنیا بھی کارپوریٹ لٹیروں کی گرفت میں تو نہیں ہے؟

کل کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہو یا آج کل کی ملٹی نیشنل اور گلوبل کارپوریشنز۔ طریقہ واردات تھوڑا مختلف مگر مقصد وہی پرانا ہے۔

میں ان تاریخی عجائب کو پڑھ کر سر دھننے کا قائل نہیں ہوں مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ بھی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments