بندہ مزدور ،بندہ مجبور



بندہ مزدورجب کہیں کوئی مفلسی سے مرتا ہے تو ہمارے پیشہ وارانہ رہنما چند بیانات دے کرکسی اورکی موت تک خاموش رہتے ہیں اوراس کے برعکس ان اقدامات کے صد باب کے لیے عملی طور پر اقدامات کی مثال آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مزدور کا احتصال روکنے کے لیے آئے دن تنظیمات بنائی جاتی ہیں اور ان تنظیمات کا ورک بھی کاغذی کارروائی تک محدود نظر آتا ہے۔ اس ملک کے زندہ دل لوگ زکوۃ، صدقات، نذرانے، سبیل وخیرات کی بھر مار تو کرتے ہیں لیکن انھیں راہ خدا پر دینے والوں کے مزدوروں سے مالی معاملات قابل تعریف نہیں۔

ہم بحثیت قوم وہاں اپنے دل کھول دیتے ہیں جہاں واہ واہ ہو کہ فلاں چودھری صاحب، فلاں حاجی، فلاں سیٹھ، فلاں خاں صاحب نے اتنا خرچ کیا اور جب اپنے متعلقہ ورکروں کا اور اپنے عزیزواقارب کا معاملہ ہو تو بالکل برعکس۔ ہمارے دوہرے معیار نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ میں ذاتی طورپر کئی احباب کو جانتا ہوں جنہوں نے پورا دن خون پسینہ ایک کیا کہ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کریں لیکن جب اجرت لینے کی باری آئی خالی ہاتھ لوٹنا پڑا یا کام کے صحیح نہ کرنے کا بہانہ بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔

بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات۔ آج امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے اورغریب غریب تر۔ آج اس فرق کو مٹانے کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ فرق مٹانا کوئی مشکل نہیں اس کے لیے گائیڈ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری دیگر نیک خدمات بعد میں اورمزدور کی مزدوری پہلے۔ مکرم اخلاق ﷺ نے فرمایا مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے۔ سندھ کے مشہور صوفی بزرگ سوھنا سائیں جب کسی مزدور سے مصافحہ کرتے مشقت کی وجہ سے اس کے ہاتھ سخت ہوتے تو آپ اس کا بوسہ لیتے اور اس کی مزید حوصلہ افزائی فرماتے۔

آج بھی ہمیں صدقات و خیرات سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ مزدور کی مزدوری اسے بر وقت ادا کی جائے ہم کسی کو اضافی رقم نہ بھی دیں اس پر یہ احسان کردیں اس کا معاوضہ پورا پورا ادا کردیں پھر وہ دن دور نہیں ہم صدقات دینے کے لیے سرگرداں ہوں گے اور کوئی ایسا نہ ملے گا جو مستحق ہو۔ ہمیں مزدور کے احتصال کو روکنا ہوگا۔ اوراس کام میں پہلے ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔ ان فرسودہ رسومات کو اگر ختم نہ کیا گیا تو حالات بہت سنگیں ہوں گے۔

قیامت برپا ہونے کے لیے کسی مظلوم کی ایک آہ کافی ہے۔ کیونکہ پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔ اک آہ سرے عرش لرزہ برپاکر دیتی ہے۔ ملکی قوانین بھی صرف کم آمدنی والے لوگوں پر گرفت کرتے ہیں۔ جبکہ ملک کا صاحب حثیت طبقہ ان قوانین سے بری ہے۔ لیبر پروٹیکشن قوانین پر عمل درآمد کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے نچلی سطح پر گائیڈنس کی ضرورت ہے۔ مزدور کے کیس فری آف کاسٹ لڑنے کا قانون وکلاء کے لیے نافظ بھی کیا جاسکتا ہے۔

بڑے بڑے سیمینارز کی بجائے نچلی سطح پر گائیڈنس کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے سیمینار جن کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں ان کا مزدور کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور ان سیمینارز منعقد کرنے والوں کا اپنارویہ بھی لیبر سے قابل تعریف نہیں ہوتا۔ اگر درد مند لوگ مل کر ایسے حقوق جوکہ لیبر کے حقوق ہیں مزدور کو پورا پورا حق مل جاتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے عطیات، خیرات وصدقات دینے کے لیے سر گرداں ہوں گے اور کوئی مستحق نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments