کورونا کے بعد کی منصوبہ بندی کے لیے پانچ تجاویز


کووڈ 19 نے ساری دنیا کو ہلا دیا ہے۔ پہلے ہی یہ بے شمار زندگیوں کو ختم کر چکا ہے یا بھاری نقصان پہنچا چکا ہے، گو کہ تمام درکار پیشوں سے متعلق لوگوں نے، اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ ذاتی اور سماجی نقصانات اور ان کو روکنے کی جدو جہدکی حمایت اور تعظیم جاری رکھی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس عالمی وبا کو تاریخی تناظرمیں دیکھا جائے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت، ہم سابقہ غلطیوں کو نہ دہرائیں۔

یہ حقیقت کہ پہلے ہی کووڈ 19 کا اتنا زیادہ معاشی اثر پڑ چکا ہے، اس کے اندر، دیگر عوامل کے علاوہ، اس معاشی طرزنظام کا بہت دخل ہے، جس کا پچھلے تیس سال سے دنیا پر غلبہ ہے۔ اس طرز نظام کے لیے سامان اور لوگوں، دونوں کے استعمال میں مستقل اضافہ ضروری ہوتا ہے، گو کہ یہ لاتعداد ماحولیاتی مسائل اوربڑھتی عدم مساوات کو پیدا کرتا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں نو لیبرل اضافی پیداواری مشین کی کمزوریاں درد ناک طور پر سامنے آئی ہیں۔

دیگر مسائل کے ساتھ ہم نے دیکھا ہے کہ: اگر قلیل مدت کے لیے بھی موثر مانگ کم ہوتی ہے تب بھی بڑی کمپنیاں فوراً ریاستی مدد کی مانگ کرنے لگتی ہیں ؛ غیر محفوظ نوکریاں ختم ہو جاتی ہیں یا ان پر روک لگ جاتی ہے ؛ اور نظام صحت، جس پر کہ پہلے ہی بہت قلیل رقم مختص تھی، اس پر بوجھ اور بڑھ گیا۔ صحت کی دیکھ بھال، بزرگوں کی دیکھ بھال، پبلک ٹرانسپورٹ، اور تعلیم سے متعلق لوگ جو ابھی حال ہی میں شناخت اور معقول معاوضہ کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اور حکومت وقت سے مورچہ لے رہے تھے، ان کو اب ’اہم پیشہ‘ گردانا جا رہا ہے۔

موجودہ نظام کی ایک اور کمزوری، جو کہ ابھی تک عالمی وبا کے موضوع پر مذاکر ہ میں نمایاں نہیں ہوئی ہے۔ وہ معاشی ترقی، حیاتی تنوع اور اہم ماحولیاتی افعال کا نقصان، اور کووڈ 19 جیسی بیماریوں کے انسانوں میں پھیلنے کے مواقع کے مابین تعلق ہے۔ یہ بہت ہی مہلک تعلق ہے اور اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ عالمی تنظیم صحت (ڈبلیو ایچ او ) کا پہلے ہی تخمینہ ہے کہ ہوائی آلودگی کے سبب ہر سال 42 لاکھ لوگوں کی موت ہوتی ہے ؛ اور 2030 اور 2050 کے درمیان، ماحولیاتی تبدیلی کے سبب ڈھائی لاکھ سالانہ اضافی اموات ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ماحولیاتی نظام کی مزید ابتری کی موجودہ معاشی نظام کے اندر توقع ہے۔

ان رونما ہونے والی تباہیوں کے اوپر مزید اور زیادہ مہلک وائرس کی وبا پھیلنے کے امکانات حقیقی ہیں۔

ان سب اسباب سے ضروری ہے کہ شدید اور سب کچھ سمو کر عمل کیا جائے ؛ اور اس لیے یہ نازک و اشد ضروری پو جاتا ہے کہ جتنا بھی جلد ممکن ہو سکے، ما بعد کووڈ 19 کی منصوبہ بندی شروع کر دی جائے۔ گو، کچھ قلیل مدتی مثبت سماجی اور ماحولیاتی اثرات اس بحران میں سامنے آئے ہیں۔ مثلاً سماج کی حمایت، مقامی سطح پر منظم کرنا اور یک جہتی، کم آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج۔ لیکن، اگر وسیع سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے لیے ٹھوس کوششیں نہیں کی گئیں تب یہ تبدیلیاں عارضی اور ہاشیہ پر ہوں گی۔ اس لیے یہ اشد ضروری ہے کہ یہ سوچا جائے کہ اس موجودہ صورت حال سے آگے بڑھنے کی (معاشی) ترقی کی ایک زیادہ پائیدار، منصفانہ، مساواتی، صحت مند اور لچک دار شکل کیا ہو سکتی ہے۔

اس مختصر منشورکا مقصد، جس پر ترقی کے سوال پر کام کر رہے 170 نیدر لینڈ میں مقیم ماہرین کے دستخط ہیں۔ ان کی سمجھ کے مطابق بحران کے دوران اور اس کے بعدآگے بڑھنے کا نازک، اہم و کامیاب پالیسی کے لائحہ عمل کو نہایت اختصار سے پیش کرنا ہے۔

ہم ما بعد کووڈ 19 ترقی کے ماڈل کے لیے پانچ اہم پالیسی سجھاؤ پیش کر رہے ہیں ؛ اور یہ سبھی اس بحران کے دوران فوراً لاگو کیے جا سکتے ہیں، اور اس بحران کے ختم ہو نے کے بعدان کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

1) مجموئی ملکی پیداوار میں اضافہ پر مرکوز ترقی سے ہٹ کر مختلف شعبوں میں جن کا فروغ ہو سکتا ہے اور جہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، مثلاً نازک کہلائے جانے والے عوامی شعبہ، اور صاف توانائی، تعلیم، صحت اور دیگر ایک طرف۔ اور خاص طور پر نجی شعبہ کا تیل، گیس، کان کنی، تشہیر، اور دیگر دوسری طرف جن میں بہت زیادہ تخفیف کرنی ہے، کیونکہ وہ بنیادی طور پر نا پائیدار ہیں یا وہ مستقل اور زیادہ کھپت میں کردار ادا کرتے ہیں۔ دونوں کے مابین تفریق کرنا پڑے گی۔

2) ایک ایسا معاشی ڈھانچہ، جس کا مرکز، جس کی توجہ، نئی تقسیم پر ہو، جو ایک عالمی بنیادی تنخواہ قائم کرے، جس کی جڑیں، جس کی بنیاد، مندرجہ ذیل باتوں پر ہو:

عالمی سماجی پالیسی کا نظام؛ آمدنی، منافع اور دولت پر بتدریج بڑھتا ٹھوس ٹیکس؛ کام کے اوقات میں کمی اور نوکری یا کام میں ساجھا کرنا؛ اور دیکھ بھال کا کام اور ضروری عوامی خدمات جیسے صحت اور تعلیم کو ان کی اندرونی قدر و قیمت کے لیے ماننا اور سراہنا۔

3) زراعت کا اصلاحی یا نو پیدائش زراعت کی طرف بدلاو، جو کہ حیاتی تنوع کے تحفظ، پائیدار اور زیادہ تر مقامی اور سبزی ترکاری پر مشتمل کھانے، اور ساتھ ساتھ منصفانہ زراعتی روزگار کے حالات اور اجرت پر منحصر ہو۔

4) کھپت اور آمد و رفت میں کمی۔ جس میں عیش و آرام اور بے جا صرف اور سفر سے زبردست تبدیلی ہو۔ اور جو صرف بنیادی، ضروری اور برقرار رکھے جا سکنے والے، اطمینان بخش کھپت اورسفر پرمشتمل ہو۔

5) قرضہ کی معافی۔ بالخصوص مزدوروں اور چھوٹے کاروبار والوں، اور عالمی جنوب کے ممالک کے لیے۔ امیر ممالک اور بین الاقوا می مالیاتی اداروں دونوں کی جانب سے۔

پیشۂ تعلیم سے منسلک ہونے کے ناتے، ہم اس بات کے مکمل طور پر قائل ہیں کہ یہ نظریۂ پالیسی، بین الاقوامی یک جہتی پر مبنی زیادہ پائیدار، برابر اور متنوع سماج کی طرف ہم کو لے جائے گا۔ جو کہ مستقبل کی عالمی وباؤں اور جھٹکوں کو روکنے اور ان سے نبرد آزما ہونے میں کہیں بہتر ثابت ہو گا۔ ہمارے لیے اب سوال یہ نہیں رہ گیا ہے کہ کیا ہم کو یہ تمام پا لیسی لاگو کرنا شروع کر دینا چاہیے، بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ ہم کیسے کریں۔

اس عالمی وباسے نیدر لینڈاور اس سے ماورا، جن زمروں پر سب سے زیادہ اثر پڑا ہے، ان کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم ان سے انصاف اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہم پیش قدمی کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل کا بحران بہت کم سخت ہو گا اور بہت کم نقصان پہنچائے گا، یا پھر ایسا بالکل ہو گا ہی نہیں۔ نیدر لینڈ اور عالمی سطح پر، بہت سی دوسری تنظیموں، گروہوں کے ساتھ مل کر، ہم سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے اس طرز کے مثبت اور با معنی نظریہ کا یہ مناسب وقت ہے۔ ہم سیاست دانوں، پالیسی سازوں اور عوام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد ان سب کے اطلاق کے لیے منظم ہونا شروع کر دیں۔

دستخط کنندہ۔ نیدر لینڈ کے تعلیم سے وابستہ 170 دانشور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments