تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے


جیسے ہی کوویڈ۔ 19 نے عالمی وبا کی شکل اختیار کی تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایت پر ہماری آنکھیں بھی کھلیں اور ایک تابعدار خادم کی طرح ہم نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور اس غلط فیصلے کی دہائی آج کے دن تک بھی ہماری مدینہ جیسی ریاست کے حاکم میڈیا پر دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کمزور معیشت اورمعاشی مشکلات کا سامنا ہماری قوم 1947 ء سے کر رہی ہے لیکن کرونا کی آمد کے ساتھ ہی جہاں عالمی معیشت کا چہرہ تبدیل ہونے کو وہاں ایٹمی کلب کی رکن مملکت اسلامیہ پاکستان بھی بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے۔

جہاں معاشرے کے غریب ترین طبقات کو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل نظر آرہا ہے وہاں حجام، درزی، بڑھئی، آٹومکینک، مستری بھی مشکلات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ ایک دیہی علاقے کا ساکن ہونے کی بنا پر میرے علم میں ہے کہ تمام ہنر مند افراد ہفتے کے چھ دن کام کرتے ہیں اور جمعرات کے دن اپنی چھ دن کی مزدوری لے کر دودھ والے، سبزی اور کریانہ والے کا بل ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس آٹاچکی والے کا بقایا بھی ادا کرتے ہیں جس سے پورا ہفتہ آٹا ادھار لیتے رہے ہیں۔

اب جبکہ ہر شعبے پر کرونا کی نحوست کے بادل چھائے ہیں وہاں ان ہنر مند افراد اور مزدور طبقے کو اجرت ملنے کے مواقع بھی کم ہیں۔ کوئی بھی ذی حیثیت اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ تعمیرات کی مد میں ان ہنر مند افراد کو روزگار مہیا کر سکے کیونکہ ہر شخص اس وقت اپنے اخراجات کو کم کرنے کی بھر پور کوشش میں مصروف ہے۔ وہ ایک شادی ہال جو عرصہ دو ماہ سے بند ہے اس کے ساتھ کم از کم 50 افراد کا روزگار وابستہ تھا، وہ سکول جس کے ساتھ کتاب فروش، درزی اور پرنٹنگ میٹیریل تیار کرنے والے کم آمدن دکاندار وابستہ تھے، دگرگوں معاشی حالات کا شکار ہیں۔

رکشہ ڈرائیور، اخبار فروش اور ٹرانسپورٹ مزدور جن میں بس ڈرائیور، کنڈکٹر اور بس دھونے والے غریب طبقے کے افراد شامل ہیں اس وقت کسمپری کی حالت میں ہیں اور اس سوچ میں غلطاں ہیں کہ اس عید پہ فطرانہ بھی دے سکتے ہیں ہیں یا نہیں۔ کچھ خاندانوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ معاش بیرون ممالک میں موجود ہنر مند اور مزدور افراد تھے لیکن سعودی عرب، دبئی اور یورپ میں پھنسے تمام افراد کو نہ صرف جان بلکہ روزگار کے بھی لالے پڑ چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ گھر میں کچھ بھیجنے کی بجائے واپس آنے کے لئے بیٹھے ہیں۔

ریاست مدینہ کا خواب تو پاکستانی عوام کی آنکھوں کی نیند اڑا ہی چکا تھا لیکن کورونا جیسی عالمی اور متنازعہ وبا نے مرد، خاتون، بچے، بوڑھے اور جوان کی آنکھ کے سپنے چرا لئے ہیں۔ وسط مارچ سے شروع ہونے والے لاک ڈاؤن سے نہ صرف خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی 33 %عوام پریشان ہے بلکہ اس عذاب نے تو سفید پوش طبقے کے ہوش بھی ٹھکانے لگا دیے ہیں۔ شادی ہال، ہوٹل اور ریسٹورنٹ تو بند تھے ہی، ریلوے اسٹیشن اور لاری اڈے بھی بند ہو چکے ہیں۔

حکومت کے لاک ڈاؤن اور حفاظتی اقدامات سے مختلف شعبہ جات سے وابستہ دیہاڑی دار، مزدور پیشہ، محنت کش اور کم آمدنی والاطبقہ سب سے زیادہ متاثر اور بے روز گارہوچکا ہے۔ اگر ذکر ہو حکومتی اقدامات کا تو ایک سہ ماہی یعنی مارچ تا مئی 12000 روپے امداد غریب خاندانوں کو پہنچ چکی ہے جس سے وہ نہ صرف گھر کا تین ماہ کا چولہا جلائیں گے، اپنے بچوں کے لئے عید کے نئے کپڑے اور جوتیاں بھی خریدیں گے بلکہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے گھر عید بھی پہنچائیں گے۔

ایک درد مند دل رکھنے والی حکومت نے سونے پہ سہاگا کا کام یہ کیاکہ چھوٹے تاجران کے لئے بھی تین ماہ کا بجلی کا بل معاف کر دیا ہے۔ کیا اس تین ماہ کے بجلی کے بل سے گھر کے چھوٹے بڑے سب عید کے نئے کپڑے آسانی سے بنا سکتے ہیں؟ مجھے کہنے دیں کہ یہ وہ ملک ہے جس کا سربراہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لے کر بھی اپنا اور اپنی ایک عددبیوی کا پیٹ نہیں پال سکتا تو تین ماہ سے گھروں میں محبوس لوگوں کے پاس کیا اتنی جمع پونجی ہے کہ وہ اس میٹھی عید پہ اپنے بچوں کی خوشیاں خرید سکیں؟

میرا دل کرتا ہے کہ میں شاہ وقت کی شان میں ایک قصیدہ لکھوں جس میں ان کی قمیض کے سوراخوں اور تقریروں کا بہترین الفاظ میں ذکر ہو، جس میں ایک بوڑھی ماں اور بہن کے غمزدہ چہرے کی کوئی پرچھائیں نہ ہو جو اس عید پہ بھی اداس ہو گی۔ یہ وہ قصیدہ ہو جس میں ایک باپ کے ان ضبط شدہ آنسوؤں کا دور دور تک نام و نشاں نہ ہو جب وہ اپنے بچوں کو اس عید پہ کپڑے بھی نہ دلا سکے گا۔ میں ان ننھی آنکھوں کے خواب بھی نہیں لکھوں گا جس کو سال میں صرف عید پہ ہی نئے کپڑے ملتے ہیں۔

میں جب بھی سوچتا ہوں کہ میری یہ عید نماز بھی سوشل ڈسٹنسنگ کے SOPsکے تحت ادا ہو گی یا نہیں تو دل میں ہول اٹھتے ہیں۔ جب یہ دیکھتا ہوں کہ اس ماہ کی حکومتی طبقے کی تنخواہ سے بھی بھاری کٹوتی کر لی گئی ہے تو یہ سوچتا ہوں کہ اتنی قلیل تنخواہ کے ساتھ وہ کون سا در کھٹکٹائے گا جہاں سے اسے چند روپے ادھار مل سکیں کہ وہ اپنی بیٹی کے لئے عید پہ پہننے کے لئے ایک پیارا سا فراک خرید سکے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حکومت اپنے کشکول کے سوراخوں کو بند کرتے ہوئے گورنمنٹ ملازمین کو ایک ایک عید بونس ہی دے دیتی تاکہ وہ اپنی پریشان حالی کی لکیریں اپنے ماتھے پہ نہ سجاتے؟

کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہر غریب کے گھر میں راشن اور عید کے کپڑے بھی پہنچائے جائیں؟ مجھے آج موجودہ وزیر اعظم کی وہ تقریر یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے حضرت عمر کے اس قول کا حوالہ دیا تھا اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ لیکن ایک ہفتے سے مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ لوگ بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوں خود کشی کر رہے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے اس اخبار فروش کا پھندے سے جھولتا لاشہ سامنے آ گیا ہے جس نے بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر میں گولی ٹافی کی دکان کھول لی، وہ بھی نہ پنپ سکی تو خود کشی کر لی۔

میرے دل میں ہول اٹھے جب باپ نے غربت کے ہاتھوں تنگ آ کراپنے بچوں کا گلا گھونٹ دیا۔ میری صرف موجودہ خاتون اوّل سے یہی گزارش ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو زیادہ تر واقعات کا علم آپ سے ہوتا ہے تو خدارا! یہ چیدہ چیدہ واقعات ہی ان کو بتا دیں تاکہ وہ قوم کی موجودہ روکھی پھیکی عید کو ایک میٹھی عید بنا دیں۔ فیض احمد فیض نے شاید موجودہ حالات کے بارے میں ہی کہا تھا

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اْٹھا کیوں نہیں دیتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments