کورونا کے زمانے میں یومِ مزدور


مئی کی پہلی تاریخ ہر سال بین الاقوامی یوم مزدور کے طورپر منائ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ پوری دنیا ایک لاک ڈاؤن کی صورت حال سے گزرہی ہے۔ اوراگر اس عرصے میں کوئی سب سے زیادہ متاثر ہے تو وہ ہے دیہاڑی دار مزدور جو کہ اپنی روزی کہیں خود سے کوئی چھوٹا کام کرکہ کماتا ہے یا وہ کہیں ملازمت کرتا ہے کچھ حاصل کرنے کے لئے تاکہ اپنے بچوں کی پرورش کرسکے۔

یوم مزدور ہرسال کی طرح آتا ہے اورکہیں کہیں لوگ اس دن تقریبات بھی منعقد کرنے ہیں۔ لیکن میرا مانناہے کہ اکثرمزدوروں کو اس دن کی اہمیت کا پتہ بھی نہیں ہوتا ہوگا۔ مزدوروں کے ساتھ ساتھ میرا خیال ہے کہ ایسے بہت سارے روزگار دینے والے افراد اور کمپنیاں بھی ہوں گے جو خود سے اس دن کی اہمیت سے واقفیت بھی نہیں رکھتے ہوں گے جوعام دنوں کی طرح اس دن بھی اُن سے پورا کام لیتے ہوں گے ۔ جس وقت میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں دنیا میں ایسے کروڑوں مزدور ہوں گے جو آج کے دن بھی اپنے مالکین کیلے کام کررہے ہوں گے ۔

مزدوروں کے حقوق ہوں، اقلیتوں اورٹرانس جینڑروں کے حقوق بہت ساری ملکوں میں آج بھی عام انسانوں جیسے حقوق کا درجہ نہیں رکھتے ہین۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہم نے کب سے یہ عالمی دن منانے شروع کیے ہیں۔ اوران کی واقعی کوئی اہمیت ہے یا ہم میں سے بیشترضرف دکھانے کے لئے یہ دن مناتے ہوں گے ۔ تاکہ دوسروں کو یا دنیا کو بتادیا جائے کہ ہم بھی مزدوروں کے حقوق کو مانتے ہیں۔

کبھی ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں یوم مزدور بڑے زوروشور سے پانچ ستارہ ہوٹلوں میں منایا جاتا تھا۔ اور میرے جیسے کچھ اپنے آپ کو نظریاتی کہنے والے اس بات پر اعتراض بھی کرتے تھے کہ وہ تقریبات سطحی طور پرمنا لئے جاتی تھیں۔ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ان جلسوں کے بارے میں مزدوروں کو علم بھی نہیں ہوا ہوتا ہوگا۔

چاہیے 80 کی دہائی کے دن ہوں یا آج کے، بات تو یہیں پرآٹکی ہوئی ہے جو پہلے تھی۔ ہمیں ان دنوں کی اہمیت کاپتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کی تحریکیں ہمارے اندرسے اٹھتی ہیں یا سب ایک سلسلہ ہوتاتھا دکھاوے کا۔

اورآج توکورونا کی وجہ سے کوئی بھی دن منانے کی اجازت نہیں ہے لہذا مزدورو ہمیں معاف کرنا کیونکہ ہمیں اجازت نہیں ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ان سطحی طورپر دنوں کے منانے سے کیا مزدوروں کو کوئی فائدہ ہوگا یا ہمیں کچھ فائدہ ملے گا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی ایک تیزنمک کھانے والے بندے کو ایک دن بغیرنمک کا سالن کھلا دیا جائے۔ اس کو اتنا ہی مزہ آئے گا جتنا ہم یہ دن مناکرکچھ حاصل کرتے ہوں گے ۔

واقعی دن منانے ہیں تو ہمیں سماجی طور پر بدلنا ہوگا، اور ان تمام مساہل پر جو واقعی ہمیں انسانی طورپرکمزور کررہے ہیں تو پہلے ان کی سائنس اور اہمیت کو اپنے بچوں کو پڑھانا ہوگا۔ کچھ ملک اپنے بچوں کو جلدی سکولوں میں داخل نہیں کرتے کہ وہ اپنے بچوں کو پہلے زندگی کے اداب سکھائیں گے۔ اور اج جو بھی دنیا کے مسائل ہیں تو ان کے بارے میں ہمارے بچوں کوان کے بارے میں زندگی کی آغاز سے ہی سمجھنے کا موقع فراہم کرنا ہوگا۔ مزدور کا دن منانے سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہونی چاہیے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردی جائے۔ مزدورکو ہم پیار کرتے ہیں، سطحی طورپر اس کا رٹٹا نہ ماریں بلکہ اس کی اہمیت کا ٹیبلٹ کھائیں تاکہ ہضم ہوجائے اور ہم بحیثیت فرد اور معاشرہ بدل جائیں۔

پہلے بدل جائیں، دل میں جگہ دیں مزدورکو پھردل بہت سارے طریقے خود سے بتا دے گا کہ اس کا دن کیسے منایا جاتا ہے۔ اورضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ تمام اہم باتوں اور ان کی سائنس کے بارے میں سوشلائزہونے کا موقع فراہم کریں۔ یہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بچے وہ تیزانسان ہیں کہ وہ دل سے کرنے اور خانہ پوری کرنے کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments