کیا کوئی اور عرفان بھی ہے؟


پچھلے ہفتے دو بڑی اموات ہو گئیں اور دونوں کینسر سے ہوئیں۔ ایک وہ ( رشی کپور ) جس کی فلموں کے ساتھ ساتھ میری نسل بڑی ہوئی اور دوسرا وہ (عرفان خان ) جس نے روایتی فلمی فریم توڑ پھوڑ کے رکھ دیا اور تاثراتی و مکالمہ جاتی ادائی کا تصور ہی بدل دیا۔

رشی تسلسل میں چلی آ رہی تھیٹریکل روایت کا وارث تھا۔ اس کی جڑیں اس زمانی مٹی میں پیوست تھیں جب ہیرو ہی کسی فلم کی ڈھائی تین گھنٹے پر پھیلی کائنات کا مرکز تھا۔ ہیروئن، اس کی سہیلی، ہیرو کا مزاحیہ دوست، ولن، گانے، فائٹ، بالاخر برائی پر اچھائی کی فتح اور پھر ”سب ہنسی خوشی رہنے لگے“ ٹائپ گروپ فوٹو۔ دی اینڈ۔

ہیرو اسٹار کہلاتا تھا اور باقی کیریکٹر ایکٹر یا سائیڈ ککس۔ کہانی کو ہیروئن کی ضرورت نہ بھی ہو تو بھی فلم بینوں کی دلجوئی کے لیے اسکرپٹ میں گنجائش ضرور نکالنا پڑتی۔ البتہ جان بوجھ کر یہ دھیان بھی رکھنا پڑتا کہ ہیروئن بھلے کتنی ہی باصلاحیت ہو مگر ہیرو کے مقابلے میں انیس ہی دکھائی دے۔ کہیں بھولے سے بھی اداکاری کے میدان میں ہیرو سے ایک آدھ قدم آگے نہ نکل جائے۔

کسی نے کسی سے پوچھا اسٹار اور ایکٹر میں کیا فرق ہے؟ جواب آیا اسٹار کسی مخصوص دور کے آسمان پر چمکتا ہے اور دور بدلتے ہی دھندلا جاتا ہے (مثلاً راجیش کھنہ) ۔ جب کہ ایکٹر وقت کے ساتھ ساتھ اور نکھرتا چلا جاتا ہے۔

بہت کم اسٹار ہوتے ہیں جو بدلتے وقت اور ذوق کو سمجھ اور بھانپ کر خود کو بھی غیر محسوس انداز میں بدلنے کی لچک اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ فی الحال میرے ذہن میں ایسے دو ہی نام آ رہے ہیں رشی اور امیتابھ۔ دونوں کی فلمی زندگی دو واضح ادوار میں تقسیم ہے۔ دور اول میں وہ ایک ہی طرح کے کردار نبھاتے دکھائی دیں گے۔ جیسے رشی مسلسل روایتی رومانی ہیرو اور امیتابھ مسلسل اینگری ینگ مین۔ مگر ایک تخلیقی وقفے میں قیلولے کے بعد کے دور میں دونوں نے جو کردار ادا کیے وہ وراسٹائل ایکٹر ہونے کی گواہی بھی اپنے ساتھ لائے۔

جب عرفان اور اس کے آگے پیچھے کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ دلی کے تربیت یافتہ کچھ اور نوجوانوں نے بالی وڈ میں قدم رکھا تو ان کے ہاتھ میں کوئی سفارشی یا خاندانی فلمی وزیٹنگ کارڈ نہیں تھا۔ ان کی خوش قسمتی کہ اس وقت کہانی اور اس کی فلماہٹ پرانے دور سے نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ نئے دور کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ اسٹار صرف دیکھنے میں اسٹار نہ ہو بلکہ اسے کردار جینا بھی آتا ہو اور ایسے جیئے کہ فلم بین کو کردار نگار بھلے بھول جائے مگر کردار یاد رہے۔

جس متبادل روایت کی داغ بیل ستیہ جیت رے، شیام بینیگل، نصیر الدین شاہ، اوم پوری، گریش کرناڈ، شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹیل جیسوں نے ڈالی اسی روایت شکن روایت کو آگے بڑھانے والے نئے ہدایت کاروں، کہانی کاروں اور کمرشل رسک مول لے کر تجربے کرنے والے چند سرپھرے فلمسازوں کے جھرمٹ میں ایک عدد عرفان خان بھی شامل تھا۔ اس پورے گروہ کو ترقی اور مقبولیت پلیٹ میں رکھ کے نہیں ملی بلکہ انھوں نے فلم بینوں کے دل سمیت یہ سب اپنی ندرتی اپچ اور مسلسل محنت کے بل پر چھینا۔

صاحبزادہ عرفان علی خان کو سوچ سوچ کر آپ کو کچھ سمجھ میں آ رہا ہے کہ کیا کریں، کیا لکھیں؟
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پے اس کے جانے کیا نہیں
( جون ایلیا)

اس کے اٹھ جانے کا ماتم کریں یا پھر جشن منائیں کہ ہم بھی اس کی کلا کے سفر میں تھوڑے بہت حصے دار رہے۔ اس کے ہر کردار پر واہ اور آہ کر کے، اس کی لائنوں پر تالی بجا کے، اس کی مسکراہٹ پر مسکرا کے اور کہانی میں اس کے ساتھ ساتھ ڈوب کر ابھر کر۔

دیکھا جائے تو کل ملا کے ہم سب کی عرفان کے ساتھ پچھلے تیس پینتیس برس میں لگ بھگ تین سو گھنٹے کی ملاقات رہی ہوگی۔ کبھی پندرہ منٹ تو کبھی ڈیڑھ گھنٹہ۔ بہت ہی تیرمارا توتین پونے تین گھنٹے۔ ملاقات بھی کیا تھی؟ بس وہ بولتا تھا ہم دیکھتے تھے۔ اور وہ بھی کہاں بولتا تھا؟ بولتی تو اس کی آنکھیں تھیں۔

پہلی بار میں نے اسے لگ بھگ بتیس سال قبل میرا نائر کی سلام بومبے میں دیکھا۔ دیکھا تو میں تکلفاً کہہ رہا ہوں۔ بس چند سیکنڈ کی ایک جھلک تھی۔ ایک مصروف سڑک پے چادر بچھا کے بیٹھنے والا لڑکا جو ان پڑھوں کی چھٹیاں لکھ اور پڑھ کے روزی روٹی کماتا ہے۔ یہ دو لائنوں کا کردار بھی مجھے یاد نہ رہتا اگر وہ آگے چل کے بہت بڑے بڑے کردار آسانی سے نہ نبھا لیتا۔

آسانی؟ کتنی آسانی سے میں نے کہہ دیا آسانی۔ مگر اس آسانی کے پیچھے اس کی کتنی طویل اور کیسی کیسی تپسیا رہی ہو گی۔ کون جانتا ہے؟

کسی انٹرویو میں اس سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آپ ایسی ساختہ اداکاری کیسے کر لیتے ہیں؟ کہنے لگا مجھے تو ایکٹنگ کا اے بھی نہیں معلوم۔ اور ایکٹنگ پیکٹنگ مجھے پسند بھی نہیں۔ میں تو بس کوشش کرتا ہوں کہ جو بھی کردار ملے اسے ایکٹنگ کر کے خراب نہ کر دوں۔

بڑا عجیب سا لگ رہا ہے پچھلے تین چار دن سے سن سن کے کہ بالی وڈ کے جانے مانے اداکار، مشہور بھارتی ابھی نیتا، فلم جگت کے ایک جگمگاتے ستارے ہم سے جدا ہو گئے، نہیں رہے، دلوں میں بس گئے وغیرہ وغیرہ۔

آخر ہم لارجر دین لائف ناموں اور نشانیوں کو ہر وقت بریکٹ کر کے انھیں چھوٹا بنانے پر کیوں تلے رہتے ہیں۔

کیسا لگے اگر کوئی کہے جانے مانے بھارتی نیتا موہن داس کرم چند گاندھی، سرکردہ پاکستانی سیاستداں محمد علی جناح، عالمی شہرت یافتہ قوال نصرت فتح علی خان۔ اردو کے ایک مشہور شاعر مرزا غالب، ہالی وڈ کے چوٹی کے ایک اداکار چارلی چیپلن، پاکستان کی جانی پہچانی سندھو ندی، بھارتی دریا گنگا۔ نام تو سنا ہی ہوگا۔

کیا کشور کمار، مہدی حسن، ایس ڈی برمن، نور جہاں، سری دیوی، اوم پوری، احمد فراز کے آگے پیچھے کچھ لگانا یا ان کا تفصیلی پریچے کرانا بہت ہی ضروری ہے۔ ہمیں کیوں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگربڑے غلام علی خان صاحب کا ایک لمبا سا تعارف نہ کرایا گیا تو کچھ لوگ انھیں کوئی بینکر نہ سمجھ بیٹھیں یا راج کپور کے ساتھ مہان ابھینیتا نہ لکھا گیا تو بعض چغد انھیں کوئی سائنسداں نہ سمجھ لیں۔

عرفان خان چلے گئے۔ کیا کوئی اور عرفان بھی ہے؟
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments