میری امی


میری والدہ پروفیسر صدیقہ انور کا انتقال اس رمضان کے تیسرے روزے ہوا۔ عمر پچاسی برس تھی۔ انہوں نے تینوں روزے رکھے۔ ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سب نے ان سے ضد کی کہ آپ اس عمر میں روزہ نہ رکھیں۔ شرع بھی اجازت دیتی ہے۔ ضد سے تنگ آ کر بالاخر انہوں نے تیسرے روزے کی افطار کے بعد وعدہ کیا کہ اب وہ اس رمضان میں مزید کوئی روزہ نہیں رکھیں گی۔ رات قریبا دس بجے ان کی طبیعت خراب ہوئی اور گیارہ بجے تک وہ اس دنیا سے جا چکی تھیں۔ وہ آخری لمحے تک اپنی بات پر قائم رہیں۔ نہ انہوں نے اس رمضان کا کوئی روزہ قضا کیا اور نہ کسی سے کیا کوئی وعدہ توڑا۔

ان کا آخری دن ان کی ساری زندگی کا خلاصہ ہے۔ صبح انہوں نے روزے کی حالت میں محلے کی خواتین کو قران پاک کا درس دیا۔ پھر ابو کے ساتھ مل کر ان تمام لوگوں کی فہرست مکمل کروائی کہ جن کو اس سال زکوۃ دینی تھی۔ ہر ایک کے نام کے ساتھ رقم لکھوائی۔ دوپہر کو اپنے کانپتے ہاتھوں سے افطار کے لیئے اپنی پسندیدہ ڈش پلاؤ بنایا۔ روزہ افطار کیا اور چپ چاپ اپنے آخری سفر پر چل دیں۔ ان کی ساری زندگی اسی طرح گذری۔ یہی مصروفیات تمام عمر ان کا معمول رہیں۔

وہ فارسی اور اردو ادب کی پروفیسر تھیں۔ تدریس سے ان کو عشق تھا۔ ریٹائر ہوئیں تو کینسر کے موذی مرض نے آن لیا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ امی کومے میں چلی گئیں۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ جانے کس معجزے کے سبب وہ اس بیماری سے صحت یاب ہوگئیں۔ اس بیماری کے بعد وہ تئیس برس حیات رہیں۔ ان تئیس برسوں میں ان کا اوڑھنا بچھونا قران پاک کی تعلیم ہو گیا۔ محلے کی چند خواتین سے درس قران کا آغاز کیا اور پھر شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوگئی۔ ہر درس کے بعد اپنی شاگردوں میں ٹافیاں تقسیم کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹافیاں لانے کی ذمہ داری ہم سب کی تھی اس میں کوتاہی ناقابل برداشت تھی۔

قران کی تعلیم کی بعد ان کی سب سے بڑی مصروفیت میرے والد انور مسعود تھے۔ ان کی شادی کو پچپن برس گذر گئے تھے۔ مگر ان کی محبت اب تک مثالی تھی۔ میرے والد نے زندگی میں جو بھی شعر لکھا ہے سب پہلے میری والدہ کو سنایا۔ میری والدہ خود عالم فاضل تھیں وہ نئے لکھے اشعار میں تصحیح بھی کرتیں اور مشورہ بھی دیتیں۔ یہ دونوں اس طرح ایک دوسرے کی زندگی میں کچھ اس طرح مشغول تھے کہ یہ بھی ہوا کہ ابو نے اسلام آباد سے لاہور جانا ہے تو ان کے گھر سے نکلتے ہی ہر پندرہ منٹ کے بعد دونوں ایک دوسرے کو فون کر کے اپنی اپنی خیریت کی اطلاع دیتے، ایک دوسرے کا حال پوچھتے۔ حد تو یہ تھی کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو گھر کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کی اطلاع بھی بڑی باقاعدگی سے دیتے۔ میرے والد بڑے کامل یقین سے یہ بات کہتے ہیں کہ ” ان کی تمام تر کامیابیوں کا سہرا میری والدہ کی دعاوں کو جاتا ہے”۔ میرے والد پر اس پچپن برس کی رفاقت کے ختم ہونے کا بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ وہ اس غم کا اظہار تو نہیں کر رہے لیکن اب جب وہ سجدے میں جاتے ہیں تو ان پر گریہ طاری دیر تک طاری رہتا ہے۔ مغفرفت کی دعا کے لیئے اٹھے ہاتھ بہت جلد آنسووں سے بھر جاتے ہیں۔۔

میری والدہ کا محبوب جملہ ” شکر ہے، شکر ہے” تھا۔ وہ ہر حال میں شکر ادا کرنے کی وجہ تلاش کر لیتیں۔ حالات چاہے کتنے بھی خراب ہوں۔ مشکلات چاہے مالی ہو یا جسمانی، فکر کسی بچے کی ہو یا پھر کسی رشتہ دار کی پریشانی ہو وہ شکوہ نہیں کرتی تھیں۔ شکر ادا کرتی تھیں۔ جس بھرپور طریقے سے زندگی انہوں نے گذاری، جس محبت سے قران کے علم کو تقسیم کیا، جس محنت سے اولاد کی تربیت کی۔ اس کے بعد اب جب وہ اس جہان سے بغیر کسی کو تکلیف دیئے ہوئے، بغیر کسی کو امتحان میں ڈالے چلی گئیں تو مجھے واثق یقین ہے کہ وہ اس وقت بھی جنت کے کسی باغ میں بیٹھی بڑی مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ساری زندگی کے بارے میں کہہ رہی ہوں گی ” شکر ہے شکر ہے”۔ شکر کی نعمت انہیں ہی میسر تھی۔ ہم ایسے بدنصیب ہیں کہ ان کے جانے کے بعد نہ ہمیں صبر آرہا ہے نہ ہی ہم سے ” شکر ہے شکر ہے ” کا ورد کیا جا رہا ہے۔

میری والدہ کی عمرکا ایک طویل عرصہ بہت عسرت میں بسر ہوا۔ اب آخری عمر میں کچھ مالی آسودگی نصیب ہوئی تو ان کی فکریں اور بڑھ گئیں۔ وہ بہت مالدار خاتون نہیں تھیں مگر اس کے باوجود وہ سب کو بار بار تلقین کرتیں کہ میرا جو بھی تھوڑا بہت مال اسباب ہے اسے شریعت کے عین مطابق تقسیم کیا جائے۔ وہ ہمیں ڈراتی بھی تھیں کہ جن کا اسباب شریعت کی رو کے مطابق تقسیم نہیں کیا جاتا ان کی روحیں اذیت میں رہتی ہیں۔ تمام عمر بھٹکتی رہتی ہیں۔

ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے تئیں اس زعم میں مبتلا رہتا کہ وہ امی کا سب سے لاڈلا ہے۔ وہ سب سے ایک سا پیار کرتیں۔ سب کی کمزوریوں اور کجیوں پر پردہ ڈالتیں۔ سب میں خوبیاں تلاش کرتیں۔ بچوں کی معاملے میں ان کی ایک عجیب عادت تھی۔ وہ بچوں کی کامیابیوں کی بہت زیادہ خوشیاں نہیں مناتی تھیں۔ وہ ان کامرانیوں کی تشہیر بھی نہیں کرتی تھیں۔ عجب بات یہ تھی کہ جب کوئی بچہ کوئی کامیابی حاصل کرتا، نئی گاڑی لیتا، نوکری میں پرموشن ملتی، کسی ایوارڈ کا مستحق قرار پاتا، یا کسی بچے کو کاروبار میں منافع ہوتا تو وہ بچہ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کا مستحق ہوتا۔ لیکن اگر کوئی بچہ زندگی کے کسی مرحلے میں ناکام ہوتا، کسی امتحان میں فیل ہو جاتا، کسی کو نقصان ہوتا تو وہ ان کی محبت کا پہلے سے زیادہ مستحق بنتا۔ اسکے ساتھ ان کا لاڈ بڑھ جاتا۔ اسکے لیے دعاوں میں اضافہ ہو جاتا۔ وہ ہماری کامیابیوں کی ہی نہیں بلکہ ناکامیوں کی بھی ساتھی تھیں۔

مہنگا لباس، زیورات، بڑی گاڑی یا کسی مہنگے ہوٹل میں کھانے سے ان کو وحشت ہوتی تھی۔ وہ سادگی سے زندگی بسر کرنے کی قائل تھیں۔ یہی سادگی ان کی زندگی کا شعار رہی اور یہی سادگی انہوں نے سفر آخرت کے وقت اختیار کی۔

اب مرحلہ ایسا جاں گسل ہے کہ کسی کو بھی ان کے جانے کا یقین نہیں آ رہا۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اب ان کی صحت کے لیئے دعا کرنی ہے یا ان کی مغفرت کے لیئے ہاتھ اٹھانے ہیں۔ ان کے لیئے دوائی لانی ہے یا پھر ان کی قبر پر پھول بکھیرنے ہیں۔ ان کی اچانٓک وفات پر آنسو بہانے ہیں یا پھر ان کی زندگی پر رشک کرنا ہے۔

ہم پانچ بہن بھائیوں کی عمریں پینتالیس سے پچپن برس کے درمیان ہیں۔ یقین مانیے اس رمضان کے تیسرے روزے سے پہلے تک ہم پانچوں بچے تھے۔ کم عمر تھے۔ نا سمجھ تھے۔ تیسرے روزے کے بعد سے ہم پانچوں اچانک بڑے ہو گئے ہیں۔ اچانک بے بس ہو گئے ہیں، اچانک بے چارے ہو گئے ہیں، اچانک بے سہارا ہو گئے ہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments