سندھ، سندھی لوگ اور تحریک انصاف


تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے بیس ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اس بیس ماہ کے عرصے میں نہ تو پچاس لاکھ گھروں کا پتہ ٹھکانا کہیں نظر آتا ہے نہ ہی ایک کروڑ نوکریاں کہیں دور بلکہ بہت دور تلک نظر آتی ہیں۔ اس بیس ماہ میں ملک کی تعمیر و ترقی کی راہیں بھی مسدود ہو چکی ہیں، سیاسی استحکام، قومی یکجہتی، معاشی معاشرتی بہتری ایک خواب سا بن چکی ہے۔ ان بیس ماہ میں اگراب تک کسی چیز نے ترقی کی ہے تو وہ نفرت، انتقام، جلن، حسد، سیاسی افراتفری، سیاسی معاشی عدم استحکام اور عدم تحفظ اور مخالفین کو برداشت نہ کرنے کے رویے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اپنی ذات کے گرداب سے باہر نکل ہی نہیں سکے، وہ وزیرِ اعظم تو بن گئے مگر وزیراعظم بن کر ابھی تک اپنا آپ نہیں منوا سکے ہیں، وہ ابھی تک اس منصبِ اعلیٰ کے لئے اپنی اہلیت اور صلاحیت کو ثابت ہی نہیں کر سکے ہیں۔ ان کے اقتدار کے گزرے بیس ماہ میں پاکستان کو صرف بحران ملے ہیں، سیاسی افراتفری ملی ہے، معاشی عدم استحکام ملا ہے اور احتسابی انتقام ملا ہے۔ پونے دو کروڑ ووٹ لے کر پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول ترین رہنما نے اپنی عوامی مقبولیت محض بیس ماہ میں اپنی غیر سنجیدہ، غیر سیاسی اور انتقامی سوچ اور متکبرانہ رویوں کی وجہ کھو دی ہے۔

تحریک انصاف آج اگر مسند اقتدار ہے تو سندھ اور سندھ کی عوام کی مرہونِ منت ہے، سندھ نے انہیں سترہ قومی اسمبلی کہ نشستیں دے کر اقتدار کے سنگھاسن پہ بٹھایا ہے مگر سندھ کی عوام کو غلام، زندہ لاشیں کہنے والے عمران خان صاحب اور ان کے اکابرین کی سندھ سے دشمنی اور نفرت شاید ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انتخابات کے بعد تعمیر و ترقی، استحکام و خوشحالی کے بلند و بانگ دعوے ایک ایک کرکے زمین بوس ہوتے گئے، سندھ سے اپنے اتحادیوں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے کیے گئے ایک بھی وعدے کو اب تک خان صاحب کی حکومت عملی جامہ نہیں پہنا سکی، یہاں تک ان کے اپنے ایم این ایز دبی دبی آوازوں میں اس بات کے شکوے شکایات کرتے نظر آتے ہیں اور اب تو ان کے بانی رکن نجیب ہارون یہ کہہ کر استعفیٰ دے گئے کہ بیس ماہ میں وہ اپنے شہر اور اپنے حلقے کے لئے کچھ نہیں کر سکے، لیاری سے ان کے ایم این ہر دوسرے روز ان کی نا اہلیت اور نالائقی پہ ان کو کوسنے دیتے نظر آتے ہیں۔

خان صاحب سندھ اور سندھی دشمنی اور نفرت میں اس قدر دور تک چلے گئے ہیں کہ یہ بھی بھول گئے کہ جس سی این جی کا وہ اور پورا ملک استعمال کرتا ہے، اس کی کل ملکی پیداوار کا ستر فیصد سندھ فراہم کرتا ہے، ملکی پیداوار کا ستر فیصد سے زائد تیل بھی سندھ سے ہی نکلتا ہے، سندھ کے سمندر پہ پورٹ بنا ہوا ہے جہاں سے دنیا بھر سے کاروبار ہوتا ہے اور جہاں کے سبز پانیوں سے سمندری مچھلی پورے ملک سمیت دنیا بھر میں درآمد کی جاتی ہے، اسی سندھ سے ملک کو 6000 ارب سالانہ کا ریونیو حاصل ہوتا ہے اور خان صاحب اور ان کے نفرت کی آگ میں جھلستے حواری کہتے ہیں کہ ہم سندھ کو کوئی فنڈ نہیں دیں گے۔

کیا یہ آئین سے انحراف، آئین سے غداری کے زمرے میں نہیں آتا، سندھ چھ ہزار ارب روپے وفاق کو دے کر اس میں سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت اپنے آئینی حصے کا اگر جائز مطالبہ کرتا ہے تو کیا گناہ کیا۔ پچھلے دنوں سندھ کی سرزمین پہ ہجرت کرکے آنے والوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے، سندھ دھرتی پہ جنم لینے والے عمران اسماعیل کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تو آج ٹی وی کے مطابق انہوں نے اس کا الزام سندھ کے لوگوں پہ یہ لگا کر سندھ اور سندھیوں سے اپنی جلن، تعصب اور نفرت کا اظہار کیا کہ انہیں کورونا جاہل اور انپڑھ سندھیوں کی وجہ سے لگا، جبکہ وزیراعظم صاحب اور ان کے سارے کے سارے حواری سندھ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے بانٹتے وقت ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے خود سماجی فاصلے کے ایس او پیز ہی بھول گئے۔

امداد بانٹتے وقت ان کا سارا زور اس بات پہ تھا کہ یہ پیسے بینظیر نہیں بلکہ عمران خان عوام کو دے رہا ہے، اب کیا کریں اگر بینظیر اور بھٹو کچھ ایسا کر گئے ہیں کہ عوام کی دلوں سے انہیں نہیں نکالا جا سکا ہے، تو آپ بھی کچھ ایسا کرو کہ آپ کو بھی لوگ ایسے ہی دل سے لگا کر رکھیں، کچھ نہیں تو کم از کم جان ہی دے کر دیکھ لو، مگر اگر آپ یہ سمجھتے ہو کہ نفرتیں پال کر، سندھ جس کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے اس کے صدیوں سے آباد وارثوں کو آپ جاہل انپڑھ کہہ کر اور صرف بارہ ہزار ان میں بانٹ کر آپ بھٹو یا بینظیر بن سکو گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔

خان صاحب سندھ سے بدلہ ہی اس بات کا لے رہے ہیں کہ سندھیوں نے انہیں بدترین شکست دے کر یہ باور کرایا کہ آپ بھٹو یا بینظیر نہ بن سکتے ہو نہ ہی ان جیسوں کی طرح دلوں پہ راج کر سکتے ہو۔ عمران خان صاحب کی حکومت نے اپنے اقتدار کے بیس ماہ میں محض نفرت، تعصب، اقربا پروری اور نسلی عصبیت جیسے رویے پروان چڑھائے ہیں۔ اپنے سیاسی ذاتی مخالفین اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کے خلاف انتقامی احتساب کی مکروہ روایات کو ملکی سیاست میں ایک نئی شکل دے کر سیاست کو گندہ کیا ہے۔

خان صاحب نے کراچی میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا وعدہ کیا، حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا مگر صرف لفاظی تک ہی ان کی کھوکھلے وعدے اور دعوے محدود رہے۔ انہوں نے سالانہ پی ایس ڈی پی سے سندھ کے چھتیس چھوٹے بڑے منصوبے نکال کر سندھ اور سندیوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا واضح ثبوت پیش کیا۔ خان صاحب اور ان کے اکابرین کی انہیں نفرتوں کا جواب سندھ بھی انہیں مسترد کرکے ہی دے گا اس سے پہلے بھی دے چکا ہے، مگر اگر خان صاحب میں ذرا سی بھی سیاسی بصیرت، دانائی اور انسانی احساسات ہوتے تو شاید سندھ کے محبت کرنے والے لوگوں کے دلوں کو جیتنا کوئی مشکل کام نہیں تھا مگر خان صاحب یہ موقع گنوا چکے اور اب جاہل اور انپڑھ سندھی خان صاحب اور ان کے حواریوں کو اس کا سبق سکھانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments