مولانا طارق جمیل حمایت اور مخالفت کے بیچ


غیاث بن ابراہیم عباسی وہ عالم دین تھا جس نے کبوتر بازی پر محض اس لیے حدیث گھڑی تھی کیونکہ خلیفہ مہدی کبوتر بازی کا شوقین تھا۔ امام ذہبی لکھتے ہیں کہ یزید بن عبد الملک کو چالیس علما نے فتوی دیا کہ خلیفہ جو چاہے کرتا پھرے اللہ کے ہاں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ مولانا عبداللہ سلطان پوری نے بادشاہ کی خاطر حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیتے دیا اور جب ان کے آبائی قبرستان کو کھولا گیا تو اس دور میں تین کروڑ مالیت کا سونا بر آمد ہوا۔

مغل بادشاہ اکبر کے درباری ملا ابوالفضل اور فیضی کا باپ شیخ مبارک بھی تو عالم دین تھا جو حضرت باقی باللہ کے صاحبزادے خواجہ کلاں کے بقول سلطان ابراہیم کے عہد حکومت میں کٹر سنی، سوری کے دور حکومت میں مہدوی، ہمایوں کے زمانہ میں نقشبندی اور اکبر کے دور میں دین اکبری کا حامل بنا رہا۔

الغرض اگر ایک طرف ان جیسے درباری علما ہیں تو دوسری طرف امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام ابن حنبل، مجدد الف ثانی اور مولانا فضل حق خیرآبادی وغیرہ جیسے علمائے حق بھی بھی تو ہیں جو شاہان وقت کے سیاہ کو سفید اور ان کے جھوٹ کو سچ کہنے پر آمادہ تھے اور نہ ہی ان کی من مرضی کو اسلام کا جامہ پہنانے پر راضی اور اسی پاداش میں انہیں جیلوں میں ڈالا گیا، ان کی پشت پر کوڑے برسائے گئے، کئی ایک کے جنازے جیل سے اٹھے تو بہت سوں کے گلے کی زینت پھانسی کے پھندے بنے لیکن انہوں نے جھکنے کی بجائے اسوہ حسینی پر عمل کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔

ان دو طبقات کے مابین ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جس نے بادشاہ کی مخالفت تو کی لیکن اللہ کی خاطر نہیں بلکہ اس لیے کیونکہ وہ دربار سے نکال دیا گیا تھا جیسا کہ تذکرۃ الموضوعات میں ہے کہ ہارون الرشید کو کبوتر پالنے کا بہت شوق تھا لہذا درباری علما نے ایک حدیث گھڑی کہ اللہ کے رسول کبوتر اڑایا کرتے تھے۔ جب یہ حدیث شاہی دربار سے نکالے ہوئے ایک دوسرے عالم تک پہنچی تو اس نے مخالفت میں یہ حدیث تراشی کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کبوتروں سے کھیلنا قوم لوط کے عمل سے ہے۔

اگر ایک طرف بادشاہ کی محبت میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے علما کا وجود رہا تو دوسری طرف ان کے مذموم ارادوں کے راہ میں رکاوٹ بننے والے علما بھی موجود رہے جن کا علمی نور گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت کی روشنی دیتا رہا۔ ایسے علما کو علمائے حق کہا جاتا ہے جبکہ جو علما کسی بھی سطح پر دین فروشی میں ملوث پائے جاتے ہیں انہیں علمائے سو کہا جاتا ہے۔

مولانا طارق جمیل صاحب کا کردار بھی تب سے اسی حوالے سے زیربحث ہے جب سے انہوں نے وزیراعظم کی کرونا فنڈنگ ریزنگ کی ٹیلی تھون میں دعا کراتے ہوئے وزیراعظم کو اکیلا دیانتدار، میڈیا کو جھوٹا اور اجڑے چمن جیسے الفاظ استعمال کیے۔ اس پر پاکستانی معاشرہ بشمول میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوا۔

ایک گروہ کے مطابق انہوں نے بالکل سچ کہا جبکہ دوسرے کے مطابق ان کی رائے صائب نہیں دی تھی۔ اس بحث کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کی حمایت میں میڈیا ہی سے منسلک کچھ افراد نے کہا کہ مولانا نے سچ ہی تو کہا ہے اور اس میں بھلا کیا شک ہے کہ پاکستانی میڈیا جھوٹ بولتا ہے؟ اس موقف کے حامی حضرات کی رائے کو بھی کسی صورت دیانتدارانہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اگر آپ یہ رائے رکھنے والے میڈیائی حضرات سے ایک ایک کر کے یہ سوال کریں کہ تم جھوٹے ہو تو کوئی بھی نہیں کہے گا کہ میں جھوٹا ہوں۔ جب سب انکاری ہیں تو پھر جھوٹا کون ہے؟

اس مقام پر بحث کا دوسرا پہلو سامنے آیا کہ انہوں نے مجموعی بات کی تھی۔ ایسا کہنا بھی حقائق کے منافی ہے کیونکہ مولانا صاحب نے دعوی کیا کہ میڈیا جھوٹا ہے اور پھر دلیل میں نام بتائے بغیر ایک میڈیا گروپ کے مالک کا ذکر کیا۔ کیا کسی بھی عمومی دلیل سے کسی بھی معین مقدمے یا دعوے کو ثابت کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے اپنے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے جس دلیل کو بنیاد بنایا اس کو خود ہی مبہم رکھا تو ایک مبہم اور مطلق دلیل کسی بھی عدالت میں خواہ وہ عوامی ہی کیوں نہ ہو، کیونکر مفسر اور مقید مدلول کو سچا یا جھوٹا ثابت کر سکتی ہے؟

جب انہوں نے یہ بات کی تو میڈیا کے کچھ لوگوں نے بجا طور پر یہ درست مطالبہ کیا کہ اس بندے کا نام بتایا جائے جو کہتا ہے کہ چینل تو بند ہو سکتا ہے جھوٹ بکنا بند نہیں ہو سکتا تاکہ ایسی کالی بھیڑوں کا ناطقہ بند کیا جائے تو اسی شام انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس مقام پر مخالفین کا دعوی مضبوط ہو گیا کیونکہ جب دلیل جھوٹی ثابت ہو جائے تو دعوے کا جھوٹا ہونا بدرجہ اولی ثابت ہو جاتا ہے۔

یوں مخالفین نے انہیں برا کہنا شروع کر دیا جبکہ موافقین کے نقطہ نظر کا تیسرا پہلو سامنے آیا کہ انہوں نے شر سے بچنے کے لیے معذرت کی اور جھوٹے میڈیا گروپ کا نام نہ لے کر پردہ داری کی جو اللہ تعالی کو بہت محبوب ہے۔ یہ موقف بھی غیرجانبداری کی بجائے محض محبت کا مجموعہ ہے کیونکہ میڈیا رائے عامہ بناتا ہے۔ وہ اگر جھوٹا ہو گا تو رائے عامہ بھی جھوٹی بنی گی جو شر کا باعث ہے۔ اس لحاظ سے نام بتانا شر نہیں بلکہ خیر کا باعث تھا۔

جہاں تک پردہ داری کی بات ہے تو اسلام نے انفرادی گناہ کی پردہ داری پر ضرور اکسایا ہے لیکن کسی بھی ایسے فعل کی پردہ داری کی جانب ترغیب نہیں دلائی جو معاشرتی بگاڑ کا باعث بنے۔ ورنہ اسلام کے ”تصور عیب پوشی“ کی اگر اسی طرح تشریح کی جائے اور ہر مجرم کا پردہ رکھنا شروع کر دیا جائے تو پوری دنیا میں عدل اور گواہی کا پورا نظام ہی زمین بوس ہو جائے گا اور کسی مجرم کو سزا نہ ہو پائے گی۔

چوتھا قابل اعتراض پہلو یہ سامنے آیا کہ انہوں نے عمران خان کو اکیلا دیانتدار کہہ کر پوری قوم کو کرپٹ کہہ دیا۔ قوم اور میڈیا کے ایک دھڑے نے یہ کہہ کر ان کی حمایت کی کہ انہوں نے ایک جنرل بات کی ہے۔ یہ موقف یہ بھی کسی طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ جب آپ جنرل بات کرتے ہیں لیکن پھر خود ہی اس میں کسی ایک یا زائد کو مستثنی یا مختص کر لیتے ہیں تو وہ بات جنرل نہیں رہتی۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں جھوٹ بہت بولا جاتا ہے تو یہ ایک جنرل بات ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں کو چھوڑ کر باقی سب جھوٹے ہیں تو یہ جنرل بات نہیں ہے بلکہ مذکورہ فلاں کو چھوڑ کر باقی سب کے جھوٹا ہونے کو مستلزم ہے۔

الغرض مولانا دانستہ یا نادانستہ سیاست کے بے رحم کھیل کا شکار بن گئے ہیں کیونکہ جو گروہ آج ان پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہا ہے کبھی اسی گروہ نے بیگم نواز کا جنازہ پڑھانے پر ان پر گالیوں کی برسات بھی کی تھی۔ ایسی صورتحال میں مولانا جیسے انسان کو تقوی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

تقوی کیا ہے؟ حضرت عمر نے یہی سوال حضرت کعب الاحبار سے پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ خاردار جھاڑیوں کے جنگل سے دامن الجھائے بغیر بخیروعافیت گزر جانا ہی تقوی ہے۔ کاش مولانا طارق جمیل صاحب بھی امام ابوحنیفہ کی طرح سیاست کی پرخار وادی میں قدم رنجہ نہ ہوتے اور اگر قدم رکھنا ضروری ہی تھا تو کاش وہ امام ابو یوسف کی طرح دامن بچا کر گزر جاتے تا کہ اتنا بڑا علمی اور اتحاد امت کا داعی انسان متنازع فیہ بن کر مخالفت اور حمایت کے دو حصوں میں تقسیم نہ ہوتا۔ اے کاش!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments