خاکی جویو کی خود نوشت ”جن پڑھایو پانڑ“ (جس نے خود کو پڑھایا)۔


سندھ کے معروف شاعر، نثر نویس، سیاسی کارکن و دانشور، صحافی اور سندھی میں پندرہ وار رسالے ”سانجاھ“ کے مدیر، خاکی جویو 8 مارچ 1942 ء کو ضلع دادو میں پیدا ہوئے اور تین برس قبل، 2 مئی 2017 ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور ضلع جامشورو میں ”سن“ شہر کے تاریخی قبرستان میں دریائے سندھ کے کنارے کے قریب ابدی آرامی ہوئے۔

انہوں نے اپنی زندگی میں سندھی ادب کو مختلف موضوعات پر، نظم و نثر میں 30 منفرد کتب دیں، جن میں ان کی شاعری کے 4 مجموعے (جن میں سے اکثریت ان کی مزاحمتی شاعری کی ہے ) ، 2 عدد سیاسی تنقید کے مجموعے، دو تراجم اور دیگر سیاسی ادب اور مقامی خواہ بین الاقوامی ادب کے تقابل پر مشتمل تبصرے ہیں۔

خاکی کی زندگی میں شایع ہونے والی ان کی آخری کتاب، ان کی شخصی خواہ سیاسی جدّوجہد سے بھرپور زندگی کے احوال پر مشتمل ان کی سندھی زبان میں لکھی خودنوشت بعنوان ”جن پڑھایو پانڑ“ ہے، جس (نام) کا مطلب ہے ”جس نے خود کو خود پڑھایا“ اور اس کتاب کا نام خاکی کی حیات کی یوں بھی عین عکاسی کرتا ہے کہ خاکی ایک کسان کے بیٹے تھے، جنہوں نے خاکی کو بچپن ہی سے کھیتی باڑی اور مال مویشی چرانے کے کام میں لگا دیا، جس کے بغیر ان کا کوئی چارہ نہ تھا۔

خاکی اپنی محنت سے کبھی بکریوں کے ریوڑ کو کھیتوں میں اکیلا چھوڑ کر اپنے گاؤں کے ہم عمروں کے ساتھ اپنے والد سے چھپ چھپا کر اسکول چلے جاتے، تو کبھی اپنے چھوٹے بھائی سے وہ کچھ پڑھ لیتے تھے، جو وہ اسکول میں پڑھ کے آتا۔ (ان کا چھوٹا بھائی، تاج جویو تب پڑھنے لگا، جب خاکی خود کچھ بڑے ہو گئے تھے، اور اپنی محنت مزدوری کے ذریعے گھر کا خرچہ چلانے لگے تھے، اور اس قابل تھے کہ اپنے والد سے اپنے چھوٹے بھائی کو تعلیم دلانے کے حوالے سے اصرار کر سکیں۔ ) لہٰذا اس کتاب کا نام مصنف کی ذات اور علمی جدوجہد سے عین مطابقت رکھتا ہے۔

یہ کتاب خاکی نے بستر علالت پر تحریر کی، کیونکہ سال 2009 ء، 2010 ء سے پہلے ہی فالج کے شدید حملے کے باعث وہ حیدرآباد سندھ میں قیامی رہے اور ان کی تحرّک سے بھرپور عملی زندگی کبھی ہسپتال کے کمرے تو کبھی گھر کے ایک کونے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ شاید ایسے میں ہی ان کو خیال آیا ہو کہ اپنی عملی جدّوجہد سے بھرپور زندگی کے تجربات اپنے قارعین کے ساتھ بانٹیں، تاکہ وہ مشکلات میں جینے کے کچھ گر سیکھ سکیں۔ 562 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو سال 2010 ء میں مارئی اکیڈمی سکرنڈ نے شایع کیا۔

اس کتاب کو خاکی نے اپنی بیٹیوں۔ آزادی، دھرتی اور سندھو کے نام اور ان کے بچّوں، ابیہ، ربیشہ، امان اور ایّان کے نام منسوب کیا ہے۔ اس خودنوشت کو خاکی نے مجموعی طور پر موٹے موٹے تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ اپنے ہی تحریر شدھ پیش لفظ کے بعد خاکی نے اس کتاب کو کل 84 عنوانات (ابواب) میں تقسیم کیا ہے اور اپنی زندگی کے مختلف حصّوں کی یادداشتیں ان موضوعات کے ذریعے اپنے قارئین تک پہنچائی ہیں۔

جن موضوعات میں میری پیدائش، میرا ددھیال، سیاسی صورتحال، ادب اور فن کی سرگرمیاں، میرا بچپن، میرا لڑکپن، شہر کی ہوا، میری جوانی کا دور، میری خودنوشت کی شعوری زندگی کا دور، امریکا کی جانب سے چاند پر پہلے شخص کا بھیجا جانا، اینٹی ون یونٹ کانفرنس، ایک کارکن کا خط، روشن جویو اور حیدر جویو سے واقفیت، سائیں جی۔ ایم۔ سیّد کی ہمہ گیر سیاست، شاگرد سیاست کا ٹکڑوں میں بٹ جانا، جی۔ ایم۔ سیّد کا سرمایہ داروں کو پھنسانے کے لیے جال، حیدر جویو کے ساتھ تصادم، دو موٹے تازے سیّدوں کا قصّہ، پنجاب کو بالآخر ون یونٹ سے دستبردار ہونا پڑا، ”سن“ (شہر) کے علم دوست ساتھی، روشن جویو سے ملاقات اور میرا اپنے پیدائشی گاؤں جانا، سندھی زبان میں ووٹر لسٹوں کی بے وقت کی راگنی، سندھ بھر کو سیاست نے آن گھیرا، سماجی تبدیلی کے لیے ہمارے گھر کے افراد کی زمین کے ذریعۂ معاش سے بے دخلی، پولیس کا رات کے وقت بھوک ہڑتالی کیمپ پر حملہ، زمین کا ہمارے گھر کے افراد کو پالنے سے انکار، ون یونٹ کی جدّوجہد کا ٹیسٹ لینے کے لیے ووٹر لسٹوں کی چھپائی کی تحریک کا چلنا، جی۔ ایم۔ سیّد کے خلاف ریاستی مشینری کے پروپیگنڈے کا شروع ہونا، جی۔ ایم۔ سیّد قومی کارکنوں اور شعراء کو ایک ساتھ بٹھاتے تھے، ایک ایسا خط جس سے خفیہ اقتداری قوّتوں کے گٹھ جوڑ کا پتا چلتا ہے، طبقات کا ترقی پسند اور رجعت پسند کردار، اقتداری قوّتوں کی قومی تحریک کو توڑنے کی سازش، روزنامہ ”عبرت“ حیدرآباد جیسے اخبار کی پالیسی بھی تبدیل ہو گئی، ون یونٹ کے دور میں لوٹ مار کی صورت، میرے امتحان دینے کا تذکرہ، کمال الدّین داروغہ اور میری دوستی، مارکسی فلسفے کے ساتھ دلچسپی، خواہش عارضی اور ضرورت دائمی ہوا کرتی ہے، تمہاری ماں نے ایک وفادار بیوی کی طرح ساتھ دیا، جی۔ ایم۔ سیّد کے خلاف اقتداری قوّتوں کی سازشیں، سندھی مزدوروں کے ساتھ زیادتیاں، اگر گھوڑے نے گھاس کے ساتھ دوستی کر لی تو کھائے گا کیا! ، انسان نما خدا، انسانی خون کا پیاسا ہوا کرتا ہے، میرا عشق اور محبّت، بھیڑیے اور بکری کی دوستی، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سوشلزم، جی۔ ایم۔ سیّد انتخابات میں پڑھے لکھے لوگ لا رہے تھے، پیر پگارہ سرمایہ دار اور کامریڈ جی۔ ایم۔ سیّد کو کیوں چھوڑ گئے؟ سائنس کو قرآن سے ثابت کرنا بیوقوفی ہے، ”اصل مالکان“ نے بنگال سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا، جی۔ایم۔ سیّد نے کہا: ”مکھن پی کر سر۔ گرم ہو رہا ہے“ ، کچھ قوموں کی آزادی کچھ اور قوموں کی بربادی ہوا کرتی ہے، کام نکلنے کے بعد بھول جانے کی ریت، تحصیلدار کی ٹوپی اور خاکی جویو، بھٹو صاحب دو سے بھی گئے تو چھ سے بھی، قادر مگسی کی قومی تحریک کے ساتھ غدّاری اور عظیم سندھی کا بڑکپن، قادر مگسی کی غلط بیانی کا جواب، عاشق عشق معشوق اور دودو مہیری، نبیلا شاہ نصیر شاہ اور خیرپور کی ڈائری، حفیظ قریشی (جونیئر) کا انٹرویو، ایک مزید قومی کارکن کا خط اور اس کا جواب، جی۔ ایم۔ سیّد کی جانب سے پیغام سندھ کی یاد دہانی، جی۔ ایم۔ سیّد کی علالت، جی۔ ایم۔ سیّد کی رحلت، رم جھم کا برسنا، ”جیئے سندھ قومی محاذ“ کا وجود، میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادت، ہندوستان اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے، جیئے سندھ قومی محاذ کے کالا باغ ڈیم کے خلاف دھرنے، پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی سندھ دشمنی، ”جیئے سندھ قومی محاذ“ میں پہلی دراڑ، جیئے سندھ قومی محاذ کی جدّوجہد، حاکم اور محکومی کا نظام، جونیجو کی حکومت اور ”جیئے سندھ قومی محاذ“ کا پریس سیکریٹری بننا، شفیع محمّد کرنانی اور میرے درمیان تنازع، انقلابی پارٹی میں ریاستی فرد، میرے بڑے بھائی دھنی بخش کی وفات اور جی۔ ایم۔ سیّد کی سالگرہ، ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے 2010 ء میں جی۔ ایم۔ سیّد ایوارڈ شامل ہیں۔

ان موضوعات کو پڑھ کر ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خاکی نے کتنے اہم، نازک اور تاریخ ساز موضوعات کو اپنا موضوع تحریر بنا کر تاریخ رقم کی ہے، جو نہ صرف ایک فرد کی جدوجہد کی کہانی ہے، بلکہ اس دور کے پورے سیاسی و سماجی حالات و واقعات کا ایک بے لاگ بیان بھی ہے۔

مصنّف کے چھوٹے بھائی اور معروف ادیب و دانشور، تاج جویو نے اپنے بھائی کی تحریر شدہ اس خود نوشت کے بیک ٹائٹل پر اپنی رائے لکھتے ہوئے اس اہم نگارش کے بارے میں لکھا ہے : ”خاکی کی یہ خود نوشت ایک مزدور شخص، ایک مزدور ادیب، ایک محنت کش قومی کارکن کی جسمانی اور روحانی مشقّت کی سچّی داستان ہے اور اس کی حیات کی حاصلات ہے۔ خاکی نے اپنی خود نوشت میں سب سچ لکھا ہے اور جو بھی لکھا ہے، وہ بے باک اور کھرے انداز میں لکھا ہے۔ یہ اس کے اپنے تجربے، مشاہدے اور احساسات ہیں۔ اس کا اپنا اسلوب اور طرز بیان ہے۔“
خاکی جویو کی یہ خود نوشت ایک طویل عرصے تک سندھی ادب میں یاد رکھی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments