عید کے کپڑے


گاؤں کے دلفریب نظارے زندگی کو نئی جہت عطا کررہے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو کرونا کا کہ عرصے بعد بہار کے موسم کے یہ ایام گھر رہنا نصیب ہوئے ورنہ زندگی کے تھپیڑے اس قدر شدید رہے کہ جہاں بچپن اور جوانی گزری وہاں کی مٹی کی خوشبو کو بھی ترس گیے تھے۔ لہذا سوچا کہ وبا کے اس دور میں ماہ مقدس گاؤں میں ہی گزارا جائے۔ تاکہ یکسوئی کے ساتھ خدا کی ذات سے اپنے نامہ اعمال پر معافی مانگی جائے۔

گاؤں میں پھول اپنا حسن دکھانے کے بعد پھلدار پودوں سے اتر چکے البتہ خوشبودار پھول فضاء کو معتر کیے ہوئے ہیں۔ چار سو درخت سبز پتوں کے ساتھ نغمہ سراء ہیں۔ سر سبز وشاداب پہاڑ بھر پور جوانی سے سینہ تا نے کھڑے ہیں۔ بادلوں کے ساتھ سورج کی آنکھ مچولی جمالیاتی حسن کو نکھار دیتی ہے۔ بارش کے بعد سر سبز پہاڑوں پر پڑنے والی سورج کی کرنوں سے نظارے دلفریب ہو جاتے ہیں۔ دلفریب وادیاں بل کھاتی ندیاں چارسو پھیلے سرسبز پہاڑ آبشاروں کا بہتا پانی پرندوں کی چہچاہٹ جنت کا ہی سماں پیش کر رہے ہیں۔ بے شک کشمیر جنت نظیر ہے۔

گاؤں کی صبح جلد شروع ہو نے سے رمضان کی صبح قدر پھیکی لگتی ہے لیکن شام بہت پر لطف ہوتی ہے۔ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی شوق سے روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ چھٹیوں کی وجہ سے بچوں میں اس بار روزے کا رجحان زیادہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ روزہ نہ رکھنے والے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ڈھلتے سورج کے ساتھ افطاری کے لیے تیار ہونے والے انواع واقسام کے کھانوں کی خوشبو پاگل کر دیتی ہے۔ گھروں کے چولہوں سے اٹھنے والا دھواں افطاری کے وقت کی قربت کی نوید بتاتا ہے۔

گھر میں بننے والے پکوڑے پڑوسیوں کی طرف سے ملنے والا دیسی دیہی کھیتوں میں لہلاتی سروں کا پکا ہوا ساگ افطاری کے حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ فراغت کے لمحات میں سارے مراحل کو قریب سے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی واپس لوٹ آئی ہے۔ جسے ہم زندگی سمجھتے رہے وہ تو جستجوتھی۔ نہ صبح کا پتا نہ شام کی خبر۔ اپنے سب ملنے کو ترستے رہے اور ہم الجھنوں سے الجھے رہے۔ نہ الجھنیں سلجھیں نہ ہم سلجھے جہان سے چلے تھے واپس وہیں پر پہنچ گیے۔

ماہ مقدس میں عام طور پر یہاں گاؤں کے لوگ بہت دعوتیں دیا کرتے ہیں۔ افطاری گھر میں بمشکل نصیب ہوتی تھی۔ لیکن وبا کے دور میں لوگ قدرے محتاط ہیں۔ جس طرح سے ہم کسی کو نہیں بلا سکتے اسی طرح لوگ بھی محتاط ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ لوگوں میں بیماری کا شعور ہے۔ گھروں میں موجود بچے راتوں کو کرونا کے اثرات پر تقاریر کرتے ہیں۔ اور بچیاں ایک دوسرے کی استاذ بن کر درس و تدریس کرتی ہیں۔

گاؤں کے قدرتی چشمے جو کبھی عورتوں کی محفلوں کا مسکن تھے وبا کے اس دور میں ویران ہیں۔ ویرانی کے اس سبب خبروں کی ترسیل میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ موت مرگ میں خواتین کا آنا جانا کم ہونے سے جانوروں کی صحت سے متعلق معلومات کابھی شدید فقدان پایا جا رہا ہے۔ لیکن اگر فون پر کوئی اطلاع مل جائے تو صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ مکانوں کے بیہڑوں سے ہی ایک دوسرے کو مطلع کرکے غائبانہ اظہار افسوس کیا جاتا ہے لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کا کمال دیکھیں کہ کرونا وائرس کے حوالے سے جو سازشی نظریات دنیا بھر میں زیر بحث ہیں ان سب سے متعلق گاؤں کی خواتین آگاہ ہیں۔

کرونا سے خوفزدہ بھی ہیں اور دنیا بھر میں اس کے شدید نتائج کا دل پر اثربھی لیے بیٹھی ہیں۔ عام طور پر خواتین اور سادگی یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ لیکن وبا کے شدید اثرات کی وجہ سے اس بار عید سادگی سے منانا چاہتی ہیں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض احباب شاید اس قدر احساس محرومی کا شکار ہیں کہ عید پر نئے کپڑے اور جوتے نہ لینے سے شاید بہت بڑا سانحہ رونماء ہو جائے۔ حالانکہ 2005 کا زلزلہ بھی تو ہم پر سے گزر چکا ہے کہ جب مکان ختم ہو گیے تھے اور بے سروسامانی کی کیفیت میں عید کا دن کھیتوں میں گزرا تھا۔

وبا کے اس دور میں ہمیں ہی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ ایک دوسرے کا احساس کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے کی مدد کر نا ہو گی۔ نہ صرف خود قربانی دینی ہو گی بلکہ بچوں کو بھی ذہنی طور پر تیار کر کے ان کی تربیت کرنی ہو گی انھیں بھی قربانی کا احساس دلانا ہو گا۔ گاؤں کی خوبصورت زندگی کو اپنی محبت اور احساس سے حقیقت کا روپ دینا ہو گا۔ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہو گا۔ عید پرانے کپڑوں میں بھی ہو سکتی ہے نئے کپڑے کسی کے جذبات کو زخمی کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments