پاک بھارت ونڈت میں ہند جڑت کی بولی


تاریخ اگر حتمی یا قطعی سچ کا حوالہ ہے تو اسے جھٹلانے کا ہر جھوٹا سچ ازخود سچا جھوٹ ہو کے رہ جاتا ہے۔ تاریخ کا نا قابلِ تردید اور انمٹ سچ یہ ہے کہ تقسیم ہند کا فیصلہ اگر کانگریس کی ہندو قیادت کو دل و جان سے قبول نہ ہوتا، یا قائد اعظم کی مسلم لیگ کو نہرو۔ پٹیل کی کانگریس جیسی پارلیمانی عددی برتری حاصل ہوتی تو بٹوارہ ہند کا فیصلہ ہرگز نہ ہونے دیا گیا ہوتا، جس کی تصدیق پنڈت جواہر لعل کی ہمشیرہ وجے لکشمی پنڈت نے اپنے انداز میں یہ مان کے کر دی کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔

گاندھی کو الزام دینا ان کے لیے آسان تھا ورنہ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ آزادی سے قبل فیصلہ کن مرحلہ آیا تو گاندھی جی یکسر بے اثر ہو چکے تھے۔ جواہر لعل صدر کانگریس ہو گئے تھے اور پٹیل کا سکہ چل چکا تھا۔ اسی لئے کانگریس کے مسلم صدر مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم کے صفحہ 197۔ 198 میں خود یہ لکھا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل ہی بٹوارہ ہند کے بانی تھے۔ اسی کے ساتھ اگر اگلے صفحات کی طرف بڑھا جائے تو لگتا ہے کہ کانگریس کے اندر مولانا آزاد واحد مسلم آواز ہی باقی رہ گئی تھی جو کانگریس کے اچانک کابینہ مشن پلان کی بجائے تقسیم ہند کے بیٹن پلان کے حق میں مائل اور قائل ہو اٹھنے کی شاکی تھی۔

یہاں تک کہ انہوں نے کانگریس کو اپنا مضطربانہ انتباہ تک کر ڈالا کہ قائد اعظم کا پاکستان کا مقدمہ تو محض سودا بازی جیتنے کا متبادل تھا، لیکن تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اگر ہم نے تقسیم ہونے دی تو منصفی فیصلہ یہی ہوگا کہ تقسیم ہند مسلم لیگ کے بموجب نہیں بلکہ کانگریس کے سبب واقع ہوئی۔ مولانا کانگریس کے اندر تقسیم ہند کے حق میں ہونے والی سرگرمیوں کے عینی شاہد اور معتبر ترین مترجم تھے جنہیں بھانپتے ہوئے وہ سٹپٹا اٹھے کہ (مطلب بہ ترجمہ)

“اگر ہم نے بٹوارہ ہند قبول کیا تو ہم انڈیا کو مستقلاّ اس سے دو چار رکھنے کا جواز چھوڑ جائیں گے۔ تقسیم سے آبادیوں کے باہمی تناؤ کا حل نہیں نکلے گا الٹا ملکی چہرے پر ایک مستقل نقش کی طرح آویزاں رہے گا۔ جناح دو قومی نعرہ سربلند کر چکے۔ بٹوارہ قبول کرنا اسی نعرے کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔ کانگریس کے لئے ہندو مسلم تفریق کی بنیاد پر ملکی بٹوارہ کیونکر قابل قبول ٹھہر سکتا ہے؟ آبادیوں کی باہمی خوفزدگی دور کرنے کی بجائے بٹوارے کا راستہ فراہم کرنا ان کے اندر منافرت کی بنا پر دو ریاستوں کو جنم دینے کی اکساہٹ بھرنے کا باعث ہوگا۔ باہمی منافرت کی بنیاد پر جب ایک دفعہ ریاستوں کا قیام معرضِ وجود میں آجائے تو پھر کسی کے لیے یہ معلوم کرکے بتانا دوبھر ہو جاتا ہے کہ ایسی تاثیر انگریزی کا آخری قیام کہاں تک لے جائے گا”۔

سطور بالا میں دیے گئے دونوں معتبر نام کسی لیگی یا پاکستانی کے نہیں کہ جن سے جانبداری کا شائبہ کھٹکے۔ دونوں کٹر کانگریسی اور بھارتی ہیں، جن سے تاریخ کا اٹل اور قطعی سچ یہ ملا ہے کہ بٹوارۂ ہند کا اقدام کانگریس کا ہے، لیگ اور قائداعظم کا قصدی اور عمدی نصب العین نہیں۔ اس کی بجائے قائداعظم کی اولین ترجیح فقط دو قومی ہند منوانے پر مرتکز رہی تھی۔ تاریخ کا یہ قطعی سچ ہندوتوا پر مبنی اکھنڈ بھارت کے جھوٹے سچ سے جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ پاکستان میں رائج نظریہِ اسلام پر مبنی نظریہ پاکستان کے سچے جھوٹ سے منایا جا سکتا ہے۔

اکھنڈ بھارت جھوٹا سچ اس لیے ہے کہ کانگریس کا ہندو اقتدار لگنے کا افتتاح ہی بٹوارہ ہند سے منایا گیا۔ اکھنڈ ہند کھونے کا داغ اکھنڈ بھارت کے دھوبی پٹڑے سے نہیں دھل سکتا۔ جس بنیاد پر ہند باقی نہیں رہا اس بنیاد پر بھارت کیسے صحیح و سالم بچا رہ پائے گا؟ مسلم اور اس کے بعد انگریز دور تک اکھنڈ ہند میں کوئی کھنڈت نہیں ہونے دی گئی کیونکہ اسے ہمیشہ دو قومی، سہ قومی اور کثیر قومی ہند ہونے کا حق بانٹا جاتا رہا۔

بھارت اگر متحدہ قومیت کا داعی بن کر قائم ہوا تو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی سب متحدہ قومیت کے ریاستی و قومی اجزا ہیں اور ان سب کے ووٹوں سے بھارت کا علاقائی تعین طے ہوا۔ اب کے پھر مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی دستور سازی اور بھارتی مسلمانوں کو ہندوؤں کے برابر شہریت کے زمرے میں شمار نہ کرنے کی قانون سازی کی جانے کی نوبت اٹھا دی گئی ہے تو تاریخ اپنا قطعی سچ منوانے کے لیے کسی مولانا آزاد کی گواہی ملکی یا عالمی عدالت کے آگے ضرور لیے کھڑی ہو گی اور اٹھارہ جولائی کا برطانوی قانون آزادی ہند کا دستاویزی ریکارڈ زیرسماعت لانے کا اصرار کرے گی، خود وکالت کرے گی۔ پاکستان سے بنگلہ دیش نکل سکتا ہے تو بھارت سے بنگالستان، پنجابستان، خالستان وغیرہ کا مشترکہ تہذیبستان کیوں نہیں نکل سکتا؟

اسی طرح نظریہ اسلام پر مبنی نظریہ پاکستان بھی اسی لیے سچا جھوٹ ہے کیونکہ بٹوارہ ہند سے بھارتی یا کانگریسی مسلمان اور پاکستانی یا لیگی مسلمان آپس میں تقسیم ہوئے۔ ان کا اسلام بالکل تقسیم نہیں ہوا کہ پاکستان کے لیے جو نظریہ اسلام نمبر ایک قرار پا گیا ہو اور بھارت کے لیے وہاں نظریہ اسلام نمبر دو کا درجہ پا گیا ہو۔ پوری دنیا میں سب مسلمانوں کا اسلام ایک ہے اور اللہ کا طے کردہ مطلق حق ہے، کسی انسانی نظریے کے ظن و گمان سے قطعی ماورا نظر یے اور عقیدہ حق میں وہی بُعد اور فرق ہوتا ہے جو ذومعنویت اور حتمی و مطلق معنویت کے مابین ہوتا ہے۔

یہاں اس مختصر سے جائزے کا حاصل یہ باور کرانا مقصود ہے کہ بھارت اور پاکستان (نیز بنگلہ دیش بھی) اپنے اپنے جھوٹے سچوں یا سچے جھوٹوں کے کرونا وائرس پھیلانے ترک کرکے میثاق لکھنو، کابینہ مشن پلان یا ابوالاعلیٰ سید مودودی کے تجویز کردہ تین خاکوں کی رو سے دو قومی کنفڈریسی کا کوئی باہمی میثاق دستوری شکل میں طے کر لیں تو یہ خطہ آئے روز کے نت نئے فسادی جوجوں ماجوجوں کی عفریتوں سے یقیناً سچی آزادی کی منزل سے ہمکنار ہو جائے گا۔

دیکھتے ہیں تاریخ اپنے قطعی سچ کی قیادت کا سہرا بھارت کے سر بابندھتی ہے، پاکستان کے سر باندھتی ہے یا واقعی کسی امام مہدی کی آمد کا پتہ دیتی ہے؟ جہاں تک اکھنڈ بھارت کی بولتی کا تعلق ہے تو نظریہ پاکستان اس کے آگے گویا کسی جنرل اروڑہ کے آگے ڈھیر ہونے کی نیازمندانہ سبیل ہے۔ اکھنڈ بھارت کی بولتی بند کرنے کا خاطر خواہ بیانیہ میثاق پاکستان ہے جو میثاقِ مدینہ کی روشنی میں مادروطن مکہ کی طرح مادروطن ہند پر مسلمانوں کا حق واپس لینے کا موثر پیغام ہے۔

۔ نوٹ: سید مودودی کے مجوزہ خاکے خورشید احمد کی مرتبہ کتاب تحریک آزادی ہند اور مسلمان میں صفحات 474 تا 494 میں درج ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments